ویب ڈیسک: افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور موجودہ صورتحال سے یہ واضح ہے کہ طالبان ایک طویل عرصے کے لیے اقتدار میں واپس آئے ہیں۔ ایسے میں سکیورٹی کے حوالے سے وسط اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں اور خاص طور پر انڈیا کے لیے یہ صورتحال کچھ بہت ہی چیلنجز سے بھرپور نظر آرہی ہے۔
ماہرینکے مطابق انڈیا کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ طالبان کی حکمرانی کو باقاعدہ اور سرکاری سطح پر تسلیم کرے یا نہیں۔ بہرحال اس حوالے سے بھی رائے منقسم ہے۔ چند ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کو فی الوقت کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ طالبان کے نظریے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے، وہ پہلے بھی جمہوریت کے نفاذ کے خلاف تھے اور اب بھی جمہوریت کے خلاف ہیں۔طالبان چاہتے ہیں کہ ملک اسلامی شریعت کے مطابق چلے۔ ایسے میں مولوی صاحبان ہی فیصلہ کریں گے کہ اس کے تحت لوگوں کے حقوق کیا ہوں گے، خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے۔
دوسری جانب افغانستان کی وزارت خارجہ میں کئی سال تک کام کرنے والے گلشن سچدیوا کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ پاکستان کا ہونا انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ سچدیو اس وقت نئی دہلی میں قائم جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ’سکول فار انٹرنیشنل سٹڈیز‘ میں پروفیسر ہیں۔مسٹر سچدیوا کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں جب امریکی افواج نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کیا اور پھر افغانستان میں جمہوری حکومت نے باگ ڈور سنبھال لی تو ایسا لگا کہ طالبان دوبارہ کبھی مضبوط نہیں ہو سکیں گے۔
مسٹر سچدیوا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’طالبان کے سابقہ دور حکومت اور اس حکومت کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ اسے پہلے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اس بار روس اور چین جیسے دنیا کے دو طاقتور ممالک اسے تسلیم کر رہے ہیں۔ یورپ کے ممالک بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی سبب اس بار انڈیا کے لیے اپنی سلامتی اور خودمختاری کے پیش نظر طالبان کے ساتھ ’ڈیل‘ کرنا بہت اہم ہو جائے گا۔‘اس لیے مسٹر سچدیو کا کہنا ہے کہ انڈیا کو تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انڈیا طالبان کے ساتھ ’مشغول‘ ہونے میں جتنا زیادہ وقت لے گا پاکستان اس سے براہ راست فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔