پی ٹی آئی کی حکومت اصلاحات لانے میں ناکام

23 Aug, 2020 | 09:44 AM

قیصر کھوکھر

قیصر کھوکھر: پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال بیت گئے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی ادارے میں کوئی بھی اصلاحات نہیں لائی جا سکیں، جس سے ایک عام شہری پریشان ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور ہر ادارہ زوال پذیر ہو رہا ہے۔

سابقہ حکومت نے پٹواری کلچر کے خاتمہ کیلئے لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے تحت کام کیا تھا وہ کام وہی رکا ہوا ہے اور پٹواری کلچر کا خاتمہ ابھی تک نہیں ہوا ہے اور اب لینڈ ریکارڈ والے عوام سے پٹواری سے زیادہ رشوت مانگ رہے ہیں اور ایک فرد حاصل کرنے کیلئے بھی سفارش تلاش کرنا پڑتی ہے۔

جائیدادوں کی بوگس الاٹمنٹ کے حوالے سے اب بھی عوام کو شکایات ہیں۔ آج کے لینڈ ریکارڈ سنٹر بھی عوام کو لوٹ رہے ہیں محکمہ ہیلتھ میں کورونا کے حوالے سے کافی بہتر کام ہو ا ہے محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر کے سیکرٹری کیپٹن (ر) محمد عثمان اور سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے سیکرٹری نبیل احمد اعوان اور ان کی ٹیم پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم اور ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر طاہر خلیل نے کافی کام کیا ہے۔

پولیس کے محکمہ کی حالت ابھی بھی پہلے جیسی ہے ایک عام آدمی آج بھی ایف آئی آر درج کرانے تھانے جانے سے گھبراتا ہے اور تھانوں میں جانے والے سائلین کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے اور تھانے میں ایس ایچ او تو سرے سے عوام اور سائلین کو ملتے ہی نہیں اور یہ کہ ڈکیتی اور راہزنی کی ایف آئی اآر درج نہیں کی جا تیں۔

ایک عام شہری آج بھی تھانے سے مطمئن نہیں، شہر میں ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور جب کوئی بھولا بھٹکا تھانے ایف آئی آر درج کرانے جاتا ہے تو ڈکیتی کی ایف آئی آر چوری میں درج کر لی جاتی ہے اور تھانے سے اس فرد کو ٹرخا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ تھانوں میں فرنٹ ڈیسک تو بنا دیئے گئے ہیں اور اب خدمت مراکز بھی بنائے جا رہے ہیں۔ فرنٹ ڈیسک بنانے سے بھی تھانہ کلچر میں بہتری نہیں ہو سکی۔

تھانہ کلچر اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا ہے جب تک بیٹ افسر، ایس ایچ او اور ایس ڈی پی او کی حالت بہتر نہیں کی جا سکتی ہے اور ان کے معاشی اور انتظامی مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ تھانے اس وقت رشوت کے پیسوں سے چل رہے ہیں اور اگر رشوت ختم ہو جائے تو تھانے دھڑم سے نیچے گر جائیں گے اور گاڑیوں میں پٹرول کے پیسے تو حکومت دیتی نہیں اور پٹرول بھی رشوت کے پیسوں سے آتا ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، لوگ نجی سکولوں کا رخ کرتے ہیں جہاں پر طلباء سے ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے اور لوگوں نے تعلیم کو تجارت بنا لیا ہوا ہے۔

حکومت کو فوری طور پر سرکاری سکولوں اور سرکاری کالجز پر توجہ دینا ہوگا تاکہ تعلیمی حالت بہتر ہو سکے اور تعلیم کا معیار زندگی بھی بہتر ہو سکے اور اب حکومت کو نجی سکولوں کی فیسوں اور معیار تعلیم کو کنٹرول کرنے اور نجی سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر ایشوز کو حل کرنے کیلئے ایک اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے، جو ان پرائیویٹ سکولوں کو کنٹرول کر سکے اور پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں دونوں کے معاملات بھی بہتر کئے جا سکیں اور تعلیمی معیار بھی اپ کیا جا سکے۔

عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی کسی بھی قسم کی اصلاحات نہیں لائی جا سکیں۔ عدالتوں میں مقدمات کا رش ہے اور انتہائی عام نوعیت کے کیسز جو مصالحتی سطح پر حل ہو سکتے ہیں وہ کیسزسالہا سال تک عدالتوں میں یہ کیس لڑے جاتے ہیں اور لوگ تھکتے بھی نہیں، اس لئے حکومت کو فوری طور پر پنچائیت سسٹم لاگو کرنا چاہیے تاکہ عام نوعیت اور غیر اہم اور پنچائتی نوعیت کے کیسز پنچائتی طور پر ہی حل کئے جا سکیں اور اس سے عدالتوں کا وقت بچایا جا سکے۔

بلدیاتی نظام کیساتھ ساتھ پنچائتی نظام لانا بھی ضروری ہے۔ لوگ تھانوں میں بھی اسی نوعیت کی انتہائی غیر اہم اور عام نوعیت کی درخواستیں دے دیتے ہیں۔ کورونا کے دوران پنجاب حکومت نے مختصر سٹاف کے ساتھ کام کیا اور کوئی ڈلیوری پر بھی اثر نہیں پڑا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس کافی فالتو سٹاف اور فالتو محکمے ہیں جن کی ری سٹرکچرنگ کی ضرورت ہے۔

آج کل لیپ ٹاپ کا دور ہے اور پیپر لیس ٹیکنالوجی کی اشد ضرورت ہے لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہو رہا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی کام ہو رہا ہے۔ محکموں کی حالت انتہائی ابتر ہے اور سائلین کو انصاف نہیں مل رہا۔ سائلین روزانہ پنجاب سول سیکرٹریٹ کا وزٹ کرتے ہیں اور کئی کئی دن چکر لگانے پر مجبور ہیں۔

پیپر لیس ٹیکنالوجی کا نفاذ اور اداروں کی ری سٹرکچرنگ اور اصلاحات بہت ضروری ہیں تاکہ ملک ترقی کرے اور ایک عام شہری کو ان اداروں پر اعتماد ہو اور اسے بروقت انصاف مل سکے۔

مزیدخبریں