ویب ڈیسک: یہ معمہ آخر حل کر لیا گیا کہ اپنے وقت کا سب سے عظیم بحری جہاز ٹائی ٹینک کیسے ڈوبا تھا ۔
112 سال قبل ایک تاریک رات میں ٹائی ٹینک ایک برفانی تودے سے ٹکرا گیا تھا۔ اس حادثہ کے وقت جہاز کے زیادہ تر مسافر سو رہے تھے۔ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک انگلینڈ کے شہر ساؤتھمپٹن سے 41 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نیویارک کی طرف بڑھ رہا تھا ا۔ حادثہ کے صرف تین گھنٹے کے اندر 14 اور 15 اپریل 1912 ءکی درمیانی رات کو ٹائی ٹینک بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا۔
وہ جہاز جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی نہیں ڈوبے گا۔ اس حادثے میں تقریباً 1500 افراد ہلاک بھی ہوئے۔ 112 سال گزرنے کے بعد بھی اسے سب سے بڑا سمندری حادثہ سمجھا جاتا ہے۔
اس کی باقیات کو ستمبر 1985 ءمیں جائے حادثہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ حادثے کے بعد جہاز کینیڈا سے 650 کلومیٹر کے فاصلے پر 3,843 میٹر کی گہرائی میں دو حصوں میں بٹ گیا اور دونوں حصے ایک دوسرے سے 800 میٹر کے فاصلے پر تھے۔
اس حادثے کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے حوالے سے معمہ برقرار ہے۔ بی بی سی نیوز برازیل نے کچھ ماہرین سے بات کر کے ان رازوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بڑے جہاز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ڈوب نہیں سکتا۔اس اعتماد کی بھی اپنی وجوہات تھیں۔
فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیرو کے شعبہ بحریہ اور اوشن انجینئرنگ کے پروفیسر اور انجینئر الیگزینڈر ڈی پنہو الہو نے کہا، “انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے، یہ ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا گیا پہلا جہاز تھا۔اس جہاز کو تیار کرتے وقت کچھ مشکلات پیش آئیں، بہت سوچ بچار کی گئی کہ جہاز کی اونچائی کتنی ہونی چاہیے، تاکہ بجلی کی تاریں اور پانی کے پائپ صحیح طریقے سے کام کرتے رہیں۔
پروفیسر الہو کے مطابق، ’’اس کے بارے میں سوچنے کے بعد انہوں نے جہاز کی اونچائی کا تعین کیا تھا، یہاں تک کہ پانی سے بھرنے کی صورت میں بھی انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ پانی چھت کی اونچائی تک نہیں پہنچ پائے گا۔‘‘اس کے علاوہ چھت پربھی محفوظ کمپارٹمنٹ بنائے گئے تھے۔”لیکن تب کسی نے برف کے تودے سے زبردست ٹکراؤ کا سوچا بھی نہ ہوگا۔”تصادم اتنا زوردار تھا کہ جہاز کے مین باڈی کی نصف لمبائی تک ایک سوراخ بن گیا، ایسی صورت حال میں پانی چھت تک پہنچ گیا۔”
“جہاز مکمل طور پر پانی سے بھرا ہوا تھا، ایسی صورت حال میں ریسکیو ممکن نہیں تھا۔ آپ پانی کو نکالنے کے لیے تمام پمپس کو چالو کر سکتے ہیں، آپ ہر ممکن کوشش کر سکتے ہیں، لیکن جس رفتار سے پانی اندر آ رہا ہو، اتنی رفتار سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔”
جہاز بنانے والے اور نیویگیٹر سول انجینئر تھیری بتاتے ہیں، “ ٹائی ٹینک کو اس طرح پروموٹ کیا گیا تھا کہ وہ ڈوب نہیں سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے سیلرز بنائے گئے تھے جو پانی کی تنگ دیواروں سے بنے تھے۔ سیلرز کی دو قطاریں تھیں۔ پانی سے بھر جانے پر جہاز ڈوبنے والا نہیں تھا لیکن آئس برگ سے ٹکرانے سے جہاز کو کافی نقصان پہنچا اور پانی سے بھرے کمپارٹمنٹس کی کئی دیواریں تباہ ہوگئیں۔”
فلومینینس فیڈرل یونیورسٹی کے پروفیسر اور ٹرانسپورٹ انجینئر اوریلو سوراس مرتا کے مطابق ‘ ٹائی ٹینک کے واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹ کو بند کرنے کا نظام بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔’اس وقت بحری جہاز بنانے کے لیے استعمال ہونے والی دھات موجودہ فولاد کی طرح مضبوط نہیں تھی۔
سوراس مرتا کا کہنا تھا کہ “زبردست ٹکراؤ کے بعد جہاز کی ساخت میں تبدیلی آئی تھی، دروازے بند نہیں ہو رہے تھے، وہ پھنس گئے تھے، اس وقت بھی ٹائی ٹینک خالص سٹیل سے بنا تھا، لیکن اس وقت سٹیل آج کے اسٹیل کی طرح مضبوط نہیں تھا۔”
جان ویتاووک، میٹالرجیکل انجینئر اور میکنزی پیریزبیٹیرین یونیورسٹی آف ساؤ پالو کے پروفیسر بتاتے ہیں کہ 1940 ءکی دہائی تک سمندری جہاز کا بنیادی حصہ شیٹ میٹل سے بنا تھا۔تاہم، بعد میں ان بحری جہازوں کی مرکزی باڈی بنانے کے لیے دھاتوں کو پگھلا کر استعمال کیا جانے لگا۔
ویتاووک بتاتے ہیں، “اس کے بعد سے، ٹیکنالوجی اور مواد بہت بدل چکے ہیں۔ اب دھات کو پگھلا کر چادریں جوڑ دی جاتی ہیں۔ سٹیل بنانے میں کاربن کا استعمال بھی کم ہونا شروع ہو گیا ہے اور مینگنیز کا استعمال بڑھنے لگا ہے۔ آج کا سٹیل “یہ بہت مضبوط ہے۔ “آج کے بحری جہاز پانی، لہروں اور طوفانوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
بڑے حادثوں کے بعد اس کی وجہ ہمیشہ انسانی غلطیاں ہی پائی جاتی ہیں۔ماہرین کے مطابق آئس برگ سے بھرے علاقے سے گزرنے میں مشکلات کے باوجود اس پر تیزی سے سفر مکمل کرنے کے لیے بے پناہ دباؤ تھا۔
دراصل یہ دباؤ ‘بلیو بینڈ’ کے حصول کے لیے تھا۔ 1839 ء میں شروع ہونے والا یہ اعزاز اس جہاز کو دیا گیا جس نے بحر اوقیانوس کو سب سے تیز رفتاری سے عبور کیا تھا۔ ٹائی ٹینک کو اس اعزاز کا سب سے مضبوط دعویدار سمجھا جاتا تھا۔
پروفیسر الہو نے کہا، “اس دور کے مطابق ٹائی ٹینک بنانے میں بہترین انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس وقت سمندری جہاز بنانے کے لیے دنیا کی بڑی کمپنیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ انگلینڈ اور جرمنی میں سب سے طویل اور تیز ترین جہاز بنانے کا مقابلہ تھا۔سب سے بڑے اور تیز ترین جہاز کو سرکاری طور پر بلیو بینڈ مل گیا۔ اس کارنامے کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی جہاز کے لیے پہلا سفر سب سے اہم سمجھا جاتا تھا۔
اس حادثے میں بچ جانے والے کئی افراد کا کہنا تھا کہ جہاز کے کپتان کو اردگرد کے علاقے میں برف کے تودے ہونے کی اطلاع ملی تھی، لیکن اس نے جہاز کی رفتار کم نہیں کی، کیونکہ وہ بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ سب سے تیز رفتار جہاز کا اعزاز حاصل کرنا چاہتا تھا۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ٹائی ٹینک اکیلا جہازنہیں تھا۔ اس جہاز کو چلانے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کمپنی نے 20ویں صدی کے آغاز میں بیلفاسٹ شہر کے ہارلینڈ اور وولف شپ یارڈ میں تین جہازوں کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ یہ تینوں بحری جہاز، جنہیں عالمی معیار کی ڈیزائن ٹیم نے بنایا ہے، دنیا کے سب سے طویل، محفوظ اور سب سے زیادہ آلات سے لیس جہاز ہوں گے۔ انجینئر اسٹمپ نے کہا، “اس وقت ان منصوبوں کی خوب تشہیر کی گئی تھی۔”
1908 ء سے 1915 ء کے درمیان بنائے گئے ان جہازوں کو اولمپک کلاس جہاز کہا جاتا تھا۔ پہلے دو جہازوں کی تعمیر پر کام شروع ہوا، 1908 ءمیں اولمپک اور 1909 ءمیں ٹائی ٹینک۔ تیسرے جہاز گیگینٹک کی تعمیر 1911 ءمیں شروع ہوئی۔
تاہم تینوں جہاز کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوئے۔ اولمپک کروزر جون 1911 ءمیں سروس میں داخل ہوا، اسی سال یہ ایک جنگی جہاز سے ٹکرا گیا۔ مرمت کے بعد اس کی سروس دوبارہ شروع ہو گئی۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی بحریہ نے اسے فوجیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ 1918 ء میں یہ ایک جرمن آبدوز سے ٹکراگیا۔ مرمت کے بعد اسے 1920 ء میں دوبارہ استعمال کیا جانا شروع ہوا۔ پرانا اور قابل اعتماد سمجھا جانے والا یہ جہاز 1935 ءتک استعمال ہوتا رہا۔
ٹائی ٹینک نے اپنا پہلا سفر 10 اپریل 1912 ءکو شروع کیا۔ اس نے ساؤتھمپٹن کی بندرگاہ کے باہر کسی دوسرے جہاز سے ٹکرانے سے بال بال بچایا۔ تاہم یہ 14 اپریل کو ایک تاریخی حادثے کا شکار ہو گیا۔
Gigantic بھی زیادہ استعمال نہیں کیا گیا تھا، اس کا نام بدل کر Britannic رکھ دیا گیا۔ برطانوی بحریہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اسے ہسپتال میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہ جہاز نومبر 1916 ءمیں ڈوب گیا تھا۔
یہ تینوں جہاز اپنے زمانے میں کافی بڑے تھے لیکن آج کے مقابلے میں بہت چھوٹے سمجھے جائیں گے۔وہ آج کے جہازوں کے مقابلے میں محض کشتیاں تھیں۔ ٹائی ٹینک کی لمبائی 269 میٹر تھی۔ عملے اور مسافروں سمیت، اس میں تقریباً 3300 افراد کی رہائش کی گنجائش تھی۔ آج کا سب سے بڑا مسافر بردار جہاز ونڈر آف دی سی ہے جو کہ 362 میٹر لمبا ہے اور عملے کے 2300 ارکان کے ساتھ سات ہزار مسافروں کو لے جا سکتا ہے۔
ٹائی ٹینک حادثے میں 1500 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد بحری جہازوں کی حفاظت کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئی تھیں۔ اس حادثے کے بعد سمندری جہازوں کی حفاظت کے لیے ریڈار جیسے آلات کا استعمال شروع ہو گیا۔
پروفیسر الہو بتاتے ہیں، “ریڈار کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی شروع ہوا تھا۔ اس سے پہلے ہر چیز کا انحصار بصارت پر ہوتا تھا۔ ایک ملاح کو ایسی اونچائی پر بٹھایا جاتا تھا جہاں سے وہ آئس برگ وغیرہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر الرٹ دے سکتا تھا۔ یہ راستہ تھا، جب جہاز تیز رفتاری سے چل رہا تھا تو یہ محفوظ نہیں تھا۔”
ٹائی ٹینک کے حادثے میں بہت سے لوگ اس لیے مارے گئے کہ ان کے لیے لائف بوٹس نہیں تھیں۔اس یقین کی وجہ سے کہ یہ جہاز کبھی نہیں ڈوب سکتا، جہاز میں صرف آدھی لائف بوٹس رکھی گئی تھیں۔
یہ حادثہ سمندری جہازوں کی حفاظت میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ سمندری جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک ادارہ جاتی فریم ورک بنایا گیا، تعمیر کے دوران حفاظتی پیرامیٹرز کا خیال رکھا گیا۔