ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سرکاری ملازمت کے چونچلے اور کلرک بادشاہ 

اسعد نقوی 

سرکاری ملازمت کے چونچلے اور کلرک بادشاہ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ایک دور ہوا کرتا تھا جب  ہر نوجوان  سرکاری  ملازمت کے پیچھے  بھاگا کرتا تھا۔ شاید  اس کی  وجہ یہی تھی کہ  سرکاری ملازمت میں مراعات  زیادہ اور کام  تھوڑا تھا۔ اب  بھی سرکاری دفاتر چلے جائیں تو  وہاں  کلرک  بادشاہوں کی تعداد  افسر شاہی  سے  زیادہ نظر آتی ہے۔ ایک آفیسر کے پاس جتنا عملہ ہے  اس سے کہیں زیادہ کام  پرائیویٹ سیکٹرمیں اکیلا  شخص کرتا نظر آتا ہے، کلرک بادشاہوں کی لائن  اور افسر شاہی کے ٹھاٹ ہونے کے باوجود  سرکاری  محکموں  میں کام  ہوتا نظر نہیں آتا  کیوں کہ  افسران  کو ٹک ٹاک  سے  فرصت نہیں ملتی اور کلرک بادشاہوں کو  چائے پینے  یا  سوشل میڈیا پر  تصاویر  اپ لوڈ کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔ اب تو یہ تاثر  سامنے آ رہا ہے کہ  سرکاری  اداروں میں  جس کام کے لیے بھرتی ہوئے  ہیں ان سے بس وہی کام نہیں لیا جا رہا، باقی سب  کام لیا جاتا ہے۔

سرکاری محکمے کے ایک سیکشن کو ہی دیکھ لیں تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ایک آفیسر کے ساتھ فوج ظفر موج پھر رہی ہے۔ ایک سیکشن  افسر  کے  ماتحت ایک اسسٹنٹ، ایک سٹینو گرافر، ایک کیشئر، ایک سٹور کیپر، ایک ڈاک رائٹر، ایک  ٹائپسٹ، ایک ٹیلی فون آپریٹر، دو یا  تین  کلرک، ایک  گیٹ کیپر، ایک  آفس بوائے اور ایک ڈرائیور بھی  ہو گا، جب کہ یہی کام  کسی پرائیویٹ سیکٹر میں اکیلا شخص ہی کر لیتا ہے ۔ مثلا اسسٹنٹ اور سٹینوگرافر ، ٹائپسٹ  کا کام  بالکل  ایک ہی ہے۔ موبائل اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی    ٹیلی فون آپریٹر موجود ہے اور افسر شاہی کے لیے  گیٹ کیپر بھی ہے تاکہ کوئی اندر کمرے میں جھانک کر صاحب کا کرسی پر لٹکا کوٹ نہ دیکھ لے اور صاحب  کا وہ کوٹ نہ جانے کتنی مدت سے کرسی پر لٹکا ہوا یہی تاثر دیتا ہے کہ صاحب بہادر یہیں کہیں ہیں۔

سرکاری دفاتر میں جاب کا چارم  اب  ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اگلے چند  برسوں بعد  گورنمنٹ سرکاری جاب کے لیے  اشتہار تو دے گی مگر امیدوار چند ایک ہی ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے پینشن  ختم کردی ہے۔ تنخواہ سے فنڈ کے نام پر کٹوتی کر لی جائے گی جس سے  پینشن یا یک مشت رقم  دے دی جائے گی۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں پروٹوکول اور ہٹو بچو والا کام بھی  جاری نہیں رہ سکے گا کیوں کہ جس طرح  سرکاری افسران نے اپنی  ٹک ٹاک بنانی شروع کی اور  ویڈیوز بنائیں، اسی طرح یہی بخار شہریوں میں بھی آچکا ہے جو  سرکاری افسران کی  ڈیوٹی کے بعد  سرکاری گاڑی کے استعمال پر ویڈیوز بنا رہے ہیں یعنی  فیملی کے ساتھ جاتا افسر اب  ٹک ٹاک  پر نظر آ جائے گا۔ اسی طرح  سرکاری افسران سے کبھی ڈینگی ایکٹیویٹی تو کبھی صفائی مہم ،کبھی  فیلڈ  ورک کے نام پر تصاویر  مانگی جاتی ہیں۔ سرکاری افسران  فیلڈ میں جا کر تصاویر اتارتے نظر آتے ہیں یا اپنی تصاویر بنا کر   افسران بالا کو بھیجتے ہیں۔ چند افسران نے تو  اس کام کے لیے بھی بندے رکھ لیے ہیں جیسے ایک پرائیویٹ سیکٹر میں   نئی  انتظامیہ آئی تو ان  کے افسران  بالا کو نیا نیا شوق چڑھا کہ ان کے دروازے  پر آفس بوائے ہونا لازم ہے۔ اُنھوں نے تمام دفتر کے آفس بوائے اکھٹے کیے اور اپنے اپنے دروازوں کے باہر براجمان کر دیے جب کہ باقی پورے  دفتر کے کام  کے لیے صرف دو آفس بوائے رہ گئے۔اب ہوا یوں کہ  اس دفتر کے پریذیڈنٹ کو  انڈے  کھانے اور جم کرنے کا بے حد شوق تھا چوں کہ وہ اس ادارے کے پریذیڈنٹ تھے تو  دفتر کے اخراجات سے ان کے لیے درجن بھر انڈے آتے تھے  جو ابال کر ان کو چائے یا کافی کے ساتھ پیش کیے جاتے تھے۔ پریذیڈنٹ کے آفس بوائے نے  دوسرے آفس بوائے کو کہا ہوا تھا کہ  میرے  آنے سے قبل انڈے بوائل کرکے چھیل کر رکھ دیا کرو، میں آ کر صاحب کو پیش کر دوں گا۔ دفتر میں اس دن کوئی ایمرجنسی تھی کہ آفس بوائے کو کسی کام سے بھیجنا ضروری تھا یا دفتر میں چائے  تقسیم نہ ہوپائی تھی جب ملازمین نے ایڈمن ڈیپارٹمنٹ کو شکایت کی تو انھوں نے کہا کیا کریں آفس بوائے نے بھی آگے سے آفس بوائے رکھا ہوا ہے اور اس نے آٖفس بوائے کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ انڈے ابال کر رکھیں، میں آ کر صاحب کو دیتا ہوں اب صاحب کا کام ہے تو ہم کیسے  روک دیں۔

بات ہو رہی تھی  سرکاری ادارے کی  کہ اب سرکاری نوکری کا چارم  ختم ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ یہاں  سرکاری ملازمین  ہی  اس نظام سے تنگ آچکے ہیں ۔ سرکاری  اداروں میں  کئی کئی ماہ  تنخواہیں نہیں  مل  رہیں ۔ سرکاری  سکولوں اور کالجز کے بارے میں خبر آ چکی ہے کہ ان کی بجلی کٹ  گئی کیوں کہ نان سیلری بجٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ نئے نئے بھرتی ہونے والے  شکوہ کناں ہیں کہ ان کو کئی کئی ماہ  تنخواہ جاری کروانے اور بقایا جات  حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں اب چوں کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی   کے ڈگری یافتہ  سرکاری نوکری حاصل کرتے ہیں تو ان کو الاؤنس کے لیے بھی  رشوت دینی پڑتی ہے، کلرک بادشاہ  تنخواہ جاری کروانے کے لیے رشوت طلب کرتے ہیں اور ہزاروں روپے لے کر کہتے ہیں  بجٹ بڑھ  گیا ہے، اس لیے  مزید پیسے دیں۔ ہزاروں  امیدواروں میں سے چند ایک  سلیکٹ ہوکر جب سرکاری نوکری حاصل کر لیتے ہیں تو اس نظام سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں ۔

اگر گورنمنٹ سرکاری  ملازمین کے جاز کیش اور ایزی پیسہ اکاؤنٹس کا ہی آڈٹ کروا لے اور ان کے کمروں  میں کیمرے لگوا لے تو  شاید  رشوت کا بازار کم ہو سکے اور کلرک کی میز پر پڑی فائل  بغیر نوٹوں کے  کئی  کئی مہینے  میز پر موجود رہنے  کی  بجائے افسران  کی میز تک منتقل ہو سکے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ اب نئے بھرتی ہونے والے سرکاری  ملازمین نے  اے جی آفس کے کلر ک بادشاہوں کے میسجز، کال ریکارڈنگ اور ویڈیوز کا ریکارڈ رکھنا شروع کردیا ہے ،جس میں اُنھوں نے رشوت طلب کی ہے کیوں کہ یہ بھی نئی نسل ہے پرانے بزرگ نہیں جو  ان کی  باتوں میں آ کر پیسے بھیج دیتے تھے۔ کسی دن  یہ بم پھٹے گا اور  سرکاری دفاتر کی بنیادیں  ہل جائیں گیں۔