وہ آج پریشان تھا اور بہت زیادہ پریشان میں نے پوچھا تو غصے سے پھٹ پڑا بولا ایک دن یہ موبائل پھٹے گا اور ہم سب ،میں آپ سب مرجائیں گے ، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیوں؟ تو وہ بولا لبنان میں کیا ہوا پہلے پیجر پھٹے سینکڑوں لوگ مرئے، ہزاروں ہسپتال شدید زخمی ہوکر پہنچے جب مرنے والوں کے جنازے پڑھائے جارہے تھے تو سیکورٹی گارڈز کے واکی ٹاکی پھٹ گئے ، لیپ ٹاپ پھٹے اور اب اسرائیل کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ایسے حملے بھی ہوں گے جس کا تصور بھی نہیں کیا گیا ہوگا ۔یاد رکھیں ہمارے ہاتھ کے موبائل ، ہیرڈرائیر ، لیپ ٹاپ ، فریج ، ٹی وی سب پھٹ سکتے ہیں، ان سے دور ہونا ہوگا ہمیں زندہ رہنے کے لیے دیہات میں چلے جانا ہوگا ہم دجالی چکر میں پھنس چکے ہیں ہم ائر کنڈیشنر کے بغیر نہیں رہ سکتے موبائل ہماری جان ہے، انٹرنیٹ بند ہوا تو ہم مر جائیں گے تو آج لبنان والوں سے پوچھو جن کے سینکڑوں لوگ ان ڈیوائسز کے ذریعے شہید کردئیے گئے ،ہم بھی ایسے ہی مارے جائیں گے ۔
جی درست کہا
میں نے کہا بھائی یہ سب قرب قیامت کے آثار ہیں لیکن ہم مسلمان اس کی کوئی تیاری نہیں کررہے ہم نے ٹیکنالوجی ایک عرصے تک صرف دجال کا ہتھیار سمجھ کر اپنے بچوں کو قرآن پاک جو تمام علوم کا منبع ہے کو صرف عربی رٹنے ، ایصال ثواب ، قل خوانیوں ، گھر دکان میں برکت کے لیے رکھا ہوا ہے ہمارے بچے زور زور سے ہل ہل کر زبانی و ناظرہ پڑھتے ہیں حافظ کہلاتے ہیں، آمین کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں لیکن ایک لفظ کا مطلب پتہ نہیں ہے ،اس کا کیا مطلب؟ ہم اللہ کے کلام کو ایک بت کی طرح پوج رہے ہیں ہمیں تو اسے سمجھنے کا کہا گیا تھا حکم تھا کہ اسے ٹہر ٹہر کر سمجھ کر پڑھو آفاقی کلام قیامت تک کے لیے تمام علوم کا احاطہ کیے ہوئے اور ہمیں اس کتاب کا مصرف یہ نظر آیا کہ بچے کا نام تلاش کرو ، قرآن کے حروف سے شادی بیاہ کی تاریخیں تلاش کرو ، فال نکالنا ، تعویز بنا کر گلے میں ڈالنا اچھے اچھے جلدان کا لباس اسے ملبوس کرانا ، چومنا آنکھوں سے لگانا غرض ہر وہ کام کرنا جو اس کے اخترام کے لیے ضروری تھا کرنا اگر نہین کرنا تو اللہ پاک کا یہ لافانی پیغام نا سمجھنا کہ اس میں کل جہاں کا علم پوشیدہ ہے ستاروں کا سیاروں کا جنت دوزخ کے راستوں کا ٹیکنالوجی کا غرض ہر وہ علم جس میں آج سائنسدان نوبل پرائز تلاش کر رہے ہیں۔ قرآن 14 سو سال پہلے بتا چکا ہے ، وہ بگ بینگ تھیوری ہوا یا کشش ثقل ، چاند سورج کا علم ہو یا علم سائنس و حیات ، سائنسدان آج پانی کو زندگی کا جزو لاینفک کہہ رہے ہیں قرآن پہلے اسے بتا چکا لیکن ہم ہیں کہ اسے صرف مقدس کتاب سمجھ رہے ہیں اور یہی ہماری ناکامی کی بڑی وجہ ہے ، نبی مکرم ﷺ اس کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کرتے رہے لیکن ہم نے اس حکم کو سمجھا ہی نہیں جو سمجھے تھے وہ دنیا پر راج کررہے ہیں اور ہم فروعی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں اور پھر شکوہ یہ کہ ہم راندہ درگاہ کیوں ہیں اور دوسرے ممالک ترقی کیسے کرگئے ۔
سعودی عرب جو نیوم سٹی بنا رہا ہے جو صرف ٹیکنالوجی کا شاہکار ہوگا، کیا اس کی ایک بھی ٹیکنالوجی کسی ایک مسلم ملک میں بنی ہوئی ہے ، ہم ایک چیونگم ، ایک اچھا برگر ، ایک اچھی شیونگ کریم نہیں بناسکے آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہیں اورمحتاج اتنے کہ پیجر اور واکی ٹاکی خریدنے کے لیے جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا (لبنان ) اس کا کوئی وجود ہی نہیں یورپ کے ایک خالی گھر کا ایڈریس اور ویب سائیٹ پر ایک خاتون کا چہرہ زبردست پروفائل کے ساتھ اور ہم نے موت خریدنے کا آرڈر دے دیا تو پھر یہی کچھ ہونا ہے جو ہواصیحح کہا کہ ہمارے گھر جو بیرونی دنیا سے الیکٹرانک اشیاء آرہی ہیں ان کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ان میں بارود نصب ہے یا نہیں ہم ویب سائٹس دیکھ کر خریداری کر رہے ہیں اور کیے جارہے ہیں ہمارے پاس کوئی ایسا میکنزم ہی نہیں کہ ہم چیک کرسکیں کہ کس گیجٹ میں بارودی مواد چھپا ہوا ہے اگر ایک ماچس کی ڈبیا جتنا پیجر اتنا بارود لاسکتا ہے جو ایک انسان کے مارنے کو کافی ہے تو سوچئیے ایک فریج ، ایک کار ، ایک جہاز ،کتنا بارود بھر کر لاسکتا ہے ، ایک حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق یہ جنگ ملحمۃ الاعظمیٰ ہے جس میں کہا گیا تھا کہ گوشت کے لوتھڑے اڑیں گے کیا ان ڈیوائسز کے پھٹنے سے احساس نہیں ہوا کہ کچھ بھی پھٹ سکتا ہے ہمیں اپنی ٹیکنالوجی خود بنانا ہوگی کچھ کم درجے کی ہی سہی لیکن میرے ہاتھ مین یہودی کمپنی کا نہیں اپنی پاکستانی کمپنی کا موبائل ہوگا تو بارود تو اس میں نہیں ہوگا ، تصویر شائد اس کے کیمرے سے اچھی نہ آئے تصویر لینے والا تو بچ جائے گا