احمد منصور:آئی پی پیز کے ملکی معیشت میں تباہی کے حوالے سے حقائق منظر عام پرآگئے۔ کچھ آئی پی پیز نے غلط کنٹریکٹ کی وجہ سے بغیر بجلی پیدا کیے حکومت پاکستان سےاربوں روپےوصول کئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کی جانب سے غلط کنٹریکٹ کیے گئے جس کا خمیازہ حکومت پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آئی پی پیز نے بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں پاکستان میں اسی Capacity کے ونڈز پلانٹس چار گنا مہنگے لگائے یعنی کہover invoicing کی۔ پاکستان میں کوئلے کےذخائر کے باوجودآئی پی پیز بجلی پیدا کرنے کے لیے امپورٹڈ فیول جیسا کہ ہائی سپیڈ ڈیزل اور درآمدی کوئلے پرانحصار کر رہی ہیں۔آئی پی پیز کے ان اقدامات کی وجہ سے مہنگی بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ آئی پی پیز نے جتنا امپورٹڈ فیول درآمد کیا اتنی بجلی پیدا نہیں کی اور حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بھی حاصل کی۔آئی پی پیز حکومت پاکستان کے بے پناہ اصرار کے باوجود فرنزک آڈٹ سے گریزاں ہیں۔ آئی پی پیز نے پلانٹس کی دیکھ بھال کی مد میں حکومت پاکستان سے اربوں روپے وصول کیے۔جبکہ پلانٹس کی دیکھ بھال پہ اسکی چوتھائی رقم بھی خرچ نہیں ہوتی۔ حیرت انگیز طور پر حکومت پاکستان آئی پی پیز کی انشورنس بھی خود برداشت کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے ابتدا میں آئ پی پیز لگانے کے اخراجات بھی برداشت کیے ۔ حکومت پاکستان نے ٹیکس ڈیوٹی اور انشورنس کی مد میں بھی آئی پی پی مالکان کو سہولیات مہیا کی۔
تمام اخراجات برداشت کرنے کے باوجود کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے پر پلانٹس حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں ہوں گے۔ آئی پی پیز کے بیشتر مالکان لوکل ہیں مگر دانستہ طور پہ کنٹریکٹ کچھ فارنرز کے نام پر کیے گئے۔
توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق آئی پی پیز کو بھاری ادائیگیوں کی وجہ سے حکومت کو دیگراہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیےشدیدمشکلات کا سامنا ہے
آئی پی پیزاپنی لاگت سے سینکڑوں گنا منافع کما چکے ہیں اس لئے معاہدوں پر نظرثانی کی جائےپاکستان میں بیشتر آئی پی پیزپہ چند بااثرخاندانوں کی اجارہ داری ہے۔کچھ آئی پی پیز رضا کارانہ طور پر حکومت سے مذاکرات اور قیمتیں کم کرنے کو تیار ہیں ۔ آئی پی پیز کی ملی بھگت سے حکومت پاکستان کو اربوں روپےکا نقصان ہو چکا ہے۔