تحریر،احمد منصور :عالمی میڈیا خاص طور پر اسرائیلی اخبارات میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ایک بڑے سیاسی مسیحا کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور اب ٹائمز آف اسرائیل کے بعد صف اول کے ایک اور اسرائیلی اخبار دی یروشلم پوسٹ نے بھی بانی پی ٹی آئی عمران خان کو پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کیلئے مناسب ترین لیڈر قرار دیدیا ہے اور لکھا ہے کہ عمران خان وہ واحد سیاستدان ہے کہ جو برسر اقتدار آ کر نہ صرف پاکستان کے عوام کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قائل کر سکتا ہے بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ذہن بدلنے کے مشن میں بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے جس کا بڑا حصہ پچھلے 75 برسوں سے اسرائیل کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہ کرنے کی پالیسی پر سختی سے کاربند چلا آ رہا ہے، اسرائیلی اخبار کی اس گواہی نے پاکستان میں پھیلائے گئے اس تاثر کا بھی پول کھول دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم عمران خان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا لیکن وزیراعظم عمران خان نے اسے رد کر دیا، اب خود دی یروشلم پوسٹ جیسا بڑا اسرائیلی اخبار لکھ رہا ہے کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ پچھلے 75 برسوں سے اسرائیل کو کسی قیمت پر تسلیم نہ کرنے کے فیصلے پر سختی سے کاربند ہے اور عمران خان اس کا یہ اسٹریٹجک فیصلہ تبدیل کروانے میں کامیاب ہو سکتا ہے، یہ تازہ ترین گواہی پاکستانی میڈیا کے اس حصے کے موقف کو تقویت دے رہی ہے کہ جن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کر کے کچھ معاشی مفادات سمیٹنے کا بیانیہ لانچ کرنے کے پس پردہ اصل کھلاڑی خود اس وقت کے وزیراعظم عمران خان تھے اور سیاسی بدنامی کے خوف سے انہوں نے خود کو کیموفلاج کرنے کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی آڑ استعمال کی۔
عمران خان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان کے مناسب ترین لیڈر ہونے کے کا یہ دعویٰ دی یروشلم پوسٹ نے اپنی 15 ستمبر کی اشاعت میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے محقق ہیری رچر کے آرٹیکل میں کیا یے، جس کا عنوان ہے کہ "ابراہام معاہدے کی سالگرہ پر اسرائیل کے جیو پولیٹیکل نقشے کی ری ڈرائنگ" ، اس آرٹیکل میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور اسلامی دنیا کے تعلقات کی نارملائزیش جس قدر بظاہر خاصے فاصلے پر نظر آ رہی ہے ایسا نہیں بلکہ یہ بظاہر نظر آنے والے فاصلے سے کہیں زیادہ قریب ہے،
دی یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ اگرچہ اس نے ایک طویل عرصے سے فلسطین کی حمایت کی پالیسی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہے، تاہمںحالیہ برسوں کے دوران اس کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا کبھی کبھار بالواسطہ اظہار سامنے آتا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف سخت بیان بازی کے باوجود بارہا اس بات کا اشارہ دیا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب باقی مسلم دنیا نے اپنے معاشی مفادات کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر رکھا تھا اس وقت کے وزیراعظم پاکستان کا یہ موقف اسرائیل کے نقطہء نظر سے خاصا حوصلہ افزا تھا۔
دی یروشلم پوسٹ نے مزید لکھا ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے حالیہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیت کر ثابت کر دیا ہے کہ ملکی سیاست میں ان کا اثرورسوخ اب بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے ایسے ہم خیال لیڈر کا عملی طور پر ابھر کر سامنے آنا بہت اہم ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے کہ پاکستان کس حد تک اس اہم ایشو پر نظر ثانی کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔
دی یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان کو درپیش خوفناک اقتصادی بحرانوں کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف تاریخی دشمنی ختم کرکے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ ملک کیلئے بہت سے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کا باعث بن سکتا ہے جن میں زراعت، سائبر سیکیورٹی، اور دفاعی شعبے میں تکنیکی مدد خاص طور پر قابل ذکر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ مالی سرمایہ کاری بھی ایک اور پرکشش پہلو ہے ، اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت صرف ایک سال 2022ء میں124 فیصد اضافے کے ساتھ 2.59 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو اس صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے جو پاکستان اسرائیل تجارت شروع ہونے سے حاصل ہونے والے مالی فوائد کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔
دی یروشلم پوسٹ نے مزید لکھا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو متنوع بنانے سے پاکستان تجارتی کے ساتھ ساتھ اسٹریٹجک فوائد بھی لے سکتا ہے کیونکہ ہندوستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کی وجہ سے اسے اپنے دفاع اور داخلی سلامتی کے حوالے سے سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔
دی یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک مسلسل سخت مزاحمت بڑا مسئلہ ہے جس نے ایک طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر آنے سے روک رکھا ہے، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اس سخت رویئے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان میں قیادت کی تبدیلی کی ضرورت ہو گی تاکہ نئی سوچ والی نئی قیادت فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پرانی سوچ ترک کرنے پر آمادہ کر سکے۔
اسرائیلی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ عمران خان جیسی غیر روایتی شخصیات یقیناً علاقائی حرکیات کے مسلسل ارتقاء کے ساتھ ساتھ عوامی رائے اور فوجی پالیسی دونوں کو تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہیں۔