تحریر،طاہر جمیل خان:موجودہ حالات میں کاہنہ کا جلسہ تحریک انصاف کے لئے کئی حوالوں سے باعث اطمینان ہے۔ جہاں یہ پارٹی ایک کارنر میٹنگ تک نہیں تھی کر سکتی۔ پارٹی پرچم اور عمران خان کی تصویر کی نمائش عذاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ایسے میں ایک ہی مہینے میں 2 جلسوں سے ان کے کارکنوں کا حوصلہ یقینا بڑھا ہو گا اور جہاں تک تعداد کی بات رہی تو میرے اندازے کے مطابق جلسے میں 30 ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے جو انتہائی شارٹ نوٹس پر جمع ہوئے، البتہ اس بار فیملیز جو کہ تحریک انصاف کے جلسوں کا خاصا ہوتی ہیں، ہمیں اس طرح سے نظر نہیں آئیں اور اس کی بڑی وجہ خوف کا ماحول اور مقررہ وقت کے بعد جلسے پر کریک ڈاون کا خدشہ تھا، لیکن اس وقت یہ سب معنیٰ نہیں رکھتا، اگر کچھ واقعی معنیٰ رکھتا ہے تو یہ ہے کہ جلسہ کم از کم ہو تو گیا۔ خان کے نعرے لگے، تقاریر ہوئیں، کارکنان کا لہو گرمایا گیا، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو للکارا گیا، یہ سب کافی ہے اورگھٹن کے اس ماحول میں تحریک انصاف اسے غنیمت سمجھے۔۔۔ اس سے تحریک کو مومنٹم ملے گا اور کارکنان وارم اپ ہوں گے۔
رہی بات 6 بجے جلسہ ختم اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے نہ پہنچنے کی تو میرے خیال سے یہ سب طے شدہ منصوبے کے مطابق تھا کیونکہ سٹیج پر موجود تمام رہنما عجلت میں نظر آئے اور 2،4 منٹ سے زیادہ کسی نے تقریر نہ کی۔ جنرل سیکرٹری سمیت تمام رہنما مقررہ وقت سے پہلے تقاریرمکمل کرچکے تھے، آخری تقریر چئیرمین بیرسٹر گوہر نے کی جو 5:58 پر ختم ہوئی، اس کے ساتھ ہی ساونڈ سسٹم والے نے اعلان کیا کہ اب چونکہ جلسے کا وقت مکمل ہو گیا ہے لہذا میں اپنا سسٹم بند کررہا ہوں ورنہ مجھے کون بچائے گا، یہ بھی منصوبے کا حصہ ہی لگ رہا تھا، کیونکہ تحریک کے رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ اگروہ ازخود 6 بجے جلسہ ختم کرنے کا اعلان کریں تو شائد عوام اور کارکنان کو بزدلی کا تاثر جائے اور وہ انہیں کے خلاف ہو جائیں۔
اس کے بعد علی امین جلسہ ختم ہونے کے تقریباً 2 گھنٹے بعد رنگ روڈ پر پہنچے اور گاڑی کے سن روف سے نکل کر چند نعرے لگائے اور وہیں سے واپس روانہ ہو گئے،ان کے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ بھی یہ نظر آرہی ہے کہ اگر وہ جلسہ میں شرکت کرتے تو انتظامیہ کی شرط کے مطابق انہیں اسلام آباد جلسہ میں کی گئی تقریر پر معافی مانگنا پڑتی، (لاہور کا جلسہ پابندیوں کے ساتھ مشروط تھا،، 43 شرائط میں دوسری ہی شرط علی امین کی معافی تھی) لیکن دوسری جانب انہوں نے اٹک پل عبور کرکے لیگی رہنماوں کی دھمکیوں اور چیلنج کو بھی پورا کردکھایا۔۔۔ لہذا انہوں نے سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی بچا لی۔
کل ملا کر یہ بات عیاں ہے کہ مقررہ وقت پر جلسے کا اختتام اور علی امین کا بروقت نہ پہنچنا سوچے سمجھے اور طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا،ہاں البتہ یہ بات ابھی واضح ہونا باقی ہے کہ آیا یہ تحریک انصاف کی اپنی حکمت عملی تھی یا حکومت اور شہر کی انتظامیہ کے ساتھ بیک ڈور چینل کے ذریعے انہوں نے اس منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔