یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے لڑکیوں سے کیا ڈیمانڈ کی جاتی ہے؟

22 Sep, 2021 | 04:28 PM

Abdullah Nadeem

ویب ڈیسک:   بی بی سی کی خفیہ تحقیقات میں مغربی افریقہ کی یونیورسٹیوں  میں اساتذہ کے ہاتھوں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی اطلاعات 
کئی مہینوں کی تحقیق کے دوران طالبات نے بتایا کہ جنسی استحصال ادارے میں کسی متعدی بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے ہیں، لیکن ابھی تک انھیں ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اہم تعلیمی اداروں میں اچھے گریڈ یا نمبروں کے لیے طالبات کا جنسی استحصال ہوتا ہے اور انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔بی بی سی نے درجنوں طالبات سے شواہد جمع کرنے کے بعد اپنی انڈرکور صحافیوں کو یونیورسٹی آف لاگوس اور یونیورسٹی آف گھانا میں طالبات کے طور پر روانہ کیا جنھوں نے ان یونیورسٹیوں میں داخلے کی خواہش کا اظہار کیا۔ان انڈرکور صحافیوں نے خفیہ کیمروں کے ساتھ ان یونیورسٹیوں میں اہم عہدوں پر فائز لوگوں سے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ملاقات کی جہاں انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
ایک طالبہ نے بتایا 'کوئی بھی ہماری بات  سننے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی ہمارا یقین نہیں کرتا۔ میں جانتی ہوں بہت سی لڑکیوں کا استحصال ہوا ہے اور کوئی بھی کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔لاگوس کی یونیورسٹی میں نو ماہ تک وہاں پڑھنے والے اور سابق طلبہ و طالبات سے انٹرویو کیے گئے جس کے نتیجے میں فیکلٹی آف آرٹس میں ایک سینیئر لیکچرر کا نام سامنے آیا جو کہ سابق نائب ڈین اور مقامی فور سکوائر گوسپل چرچ کے ہیڈ پاسٹر (پادری) نکلے۔ ان کا نام ڈاکٹر بونی فیس اگبینیو ہے۔
جب بہت سے طالب علموں نے بتایا کہ ڈاکٹر بونی فیس نے ان کا استحصال کیا ہے تو بی بی سی نے ایک خاتون صحافی کو ایک طالبہ کے روپ میں ان کے پاس بھیجا۔ انھوں نے خود کو 17 سال کی سیکنڈری سکول سے پاس طالبہ بتایا اور لاگوس یونیورسٹی (عرف عام میں اسے یونی لیگ کہا جاتا ہے) میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔کیمرے میں قید گفتگو میں ڈاکٹر بونی فیس طالبہ کی عمر پوچھتے ہیں۔  ان کی بات چیت کی ابتدا کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ لڑکی کی شکل و صورت پر تبصرہ کرنے لگتے ہیں۔ 'تمہیں پتہ نہیں کہ تم کتنی خوبصورت ہو؟  کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں پاسٹر (پادری) ہوں؟'
لڑکی کہتی ہے کہ اسے معلوم ہے۔
چند دنوں بعد ڈاکٹر بونی فیس نے انڈر کور صحافی کو دوسری ملاقات کے لیے بلایا اور اسے اپنے ساتھ عبادت کرنے یا دعا مانگنے کے لیے کہا۔ لیکن یہ عبادت عام نہیں تھی یہ پریشان کن تھی۔'دونوں نے ہاتھ ملائے اور پھر ڈاکٹر بونی فیس نے کہا: 'اپنے داخلے کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ میں اس کے لیے کام کروں گا۔'اس کے بعد وہ لڑکی سے اس کی جنسی زندگی کے بارے میں سوالات کرنے لگے جیسے کہ 'کس عمر میں تم نے مردوں کو جاننا شروع کیا؟لڑکی کے بے چین ہونے پر ڈاکٹر بونی فیس نے کہا: 'ہم لوگ جو باتیں کر رہے ہیں اس کا تمہاری ماں کو پتا نہیں چلے گا ۔
جب نائیجیریا میں تحقیقات کی جار ہی تھیں تو بی بی سی کی ٹیم گھانا یونیورسٹی پر بھی نظر رکھ رہی تھی۔ ہفتوں کے انٹرویو کے بعد کالج آف ایجوکیشن کے ڈاکٹر پال کوامے بوٹاکو کا نام سامنے آیا۔ان کے پاس بی بی سی نے ایک دوسری انڈرکور صحافی کو بھیجا جس نے خود کو فائنل ایئر کی طالبہ بتایا جو کہ ماسٹرز میں داخلے کی خواہاں تھی۔ ڈاکٹر بوٹاکر نے دوسری ہی ملاقات میں داخلے کی طالب طالبہ کو ملاقات کے لیے تنہائی میں بلایا اور پوچھا: 'کتنے لوگوں نے تہمیں بتایا ہے کہ آج تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو؟'
انھوں نے بار بار پوچھا کہ کیا وہ اسے اپنا 'سائڈ گائے' بنانے کو تیار ہیں جس کی وضاحت انھوں نے سیکنڈ بواے فرینڈ کے طور پر کی۔ڈاکٹر بوٹاکو نے اپنے شعبے میں اس لڑکی کو ایک ملازمت کی پیشکش کی یہاں تک کہ اس نے کہا کہ درخواست جمع کروانے کی تاریخ نکل گئی ہے تاہم وہ اسے رکھ لیں گے۔انھوں نے طالبہ سے مزید کہا کہ 'تمہارا فوکس اپنے کریئر پر ہونا چاہیے۔ اور پھر تمہارا سائیڈ اس بات کا خیال رکھے گا کہ وہ تمہارے کريئر میں کتنی مدد کر سکتا ہے تاکہ تمہیں بہتر انسان بنا سکے۔
ڈاکٹر بوٹاکو سے جب بی بی سی نے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے تمام الزامات کو شدت کے ساتھ مسترد کر دیا کہ انھوں نے صحافی یا کسی طالبہ کے ساتھ کوئی عشقیہ بات نہیں کی۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ وہ جنسی ہراس اور بدسلوکی کے متعلق یونیورسٹی کے ضابطے کی پیروی کرتے ہیں۔گھانا یونیورسٹی نے کہا کہ ڈاکٹر بوٹاکو پر لگائے جانے والے بدسلوکی کے الزامات بہت پریشان کن ہیں اور یہ کہ یونیورسٹی جنسی ہراس پر پرو-ایکٹو پالیسی پرعمل کرتی ہے اور وہ اس قسم کے مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کی پابند ہے۔
دوسری جانب لاگوس میں بہت سی طالبات نے ڈاکٹر بونی فیس کے ہاتھوں ہراس کی بات کہی ہے۔ان میں سے ایک نے کہا: 'وہ آپ کو اپنے آفس آنے کے لیے کہیں گے۔ وہ دروازہ بند کر دیں گے۔ بعض اوقات وہ آپ کو چھونے کی کوشش کریں گے۔  وہ پریشانی میں گھری طالبات کو چنتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ وہ کمزور ہوتی ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔
جب بی بی سی کی انڈر کور صحافی نے ان سے دوسری بار ان کے دفتر میں ملاقات کی تو انھوں نے ایک خفیہ جگہ کی بات بتائی جہاں لیکچرر طالبات کو بلاتے ہیں۔انھوں نے بتایا: 'سٹاف کلب کے اوپر ایک حصہ ہے۔ جہاں لیکچرر انھیں بلاتے ہیں۔ یہ کلب ہے اس لیے وہ اسے 'دی کولڈ روم' (سرد خانہ) کہتے ہیں۔خیال رہے کہ یونیورسٹی کی پالیسی اس قسم کے سلوک کی سخت مخالف ہے اور طلبہ و پروفیسر کے درمیان اس قسم کے کسی رشتے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔

ڈاکٹر بونی فیس کے ساتھ آخری ملاقات میں ان کا رویہ مزید خراب ہو گیا۔ انھوں نے بغیر الکوحل والی شراب لڑکی کو پیش کی۔ اور پھر اس سے کہا کہ اگر یونیلیگ میں داخلہ چاہیے تو اسے فرمانبردار ہونا ہوگا۔اس کا سلوک زیادہ سے زیادہ نازیبا ہوتا گیا۔اس کے بعد ڈاکٹر بونا فیس باتھ روم میں چلے گئے اور پھر واپسی پر انھوں نے روشنی بند کی اور دروازہ بند کیا۔ لڑکی کو قریب  بیٹھنے کے لیے کہا  اور کہا کہ 'میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔' لڑکی کو اسی وقت چھوڑا جب اس نے باتھ روم جانے کا بہانہ کیا۔ پھر ڈاکٹر بونی فیس نے اسے دھمکایا کہ اگر وہ اس سے بار بار ملنے نہیں آئی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ 'میں تمہیں کسی دن بھی بلا سکتا ہوں۔ اگر تم نہیں آتی تو میں تمہاری ماں کو بتا دوں گا کہ تم نے میری نافرمانی کی ہے۔'
بی بی سی نے ڈاکٹر بونی فیس سے اس کے متعلق بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے اپنے متعلق لگائے گئے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے جبکہ یونیورسٹی نے کہا کہ وہ ڈاکٹر بونی فیس کے مبینہ برتاؤ سے خود کو علیحدہ رکھتی ہے۔ اس کی جنسی ہراسگی پر صفر برداشت کی پالیسی ہے لیکن یونیورسٹی نے مبینہ 'کولڈ روم' پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

مزیدخبریں