پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ؛ فیصلہ ہوا ہی نہیں ، عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی

چیف جسٹس نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تحریر ی فیصلہ میں چیف جسٹس بننے کے دو امیدواروں کے فیصلے کو آئین سے باہر قرار دے دیا، کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد ضروری نہیں، 8 اکثریتی ججز کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، 8 اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں نمٹائی نہیں، جب اپیلیں نمٹائی نہیں گئیں تو کیس زیر التوا سمجھا جائے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کا مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ

22 Oct, 2024 | 07:45 PM

Waseem Azmet

امانت گشکوری:   چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ  اور مسٹر جسٹس  جمال مندوخیل نے مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لئے بغیر مخصوص نشستیں دے دینے کے اکثریتی فیصلہ کے مقابل اپنا اقلیتی فیصلہ لکھ دیا ہے۔ اس فیصلہ میں اکثریتی ججوں سے اختلاف کرنے والے معزز ججوں نے قرار دیا ہے کہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی۔

مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں  پی ٹی آئی کو  بن مانگے مخصوص نشستیں دینے کے  اکثریتی فیصلہ لکھنے والوں میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے  آج اپنی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس کیس میں اپنا  اور جسٹس جمال مندوخیل کا فیصلہ تحریر کر  کے جاری کر دیا۔   چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے 14 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی تحریر کیا۔

اکثریتی فیصلہ لکھنے والے جج اپنے فیصلہ کی دو مرتبہ تحریری "وضاحت" جاری  کروا چکے ہیں اور دونوں مرتبہ ان کی "وضاحت" جاری کرنے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے رجسٹرار سے وضاحت طلب کی کی قاعدہ اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر یہ "وضاحت" ریلیز کیسے کی گئیں۔ اب تک رجسٹرار کی طرف سے ان دونوں مین سے کسی وضاحت پر جواب سامنے نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے دونوں مرتبہ "وضاحت" پر سنجیدہ قانونی اور پروسیجرل سوالات کئے ہیں۔

آٹھ جولائی کا مختصر اور 23 جولائی کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرا، امید ہے اکثریتی جج اپنی غلطیوں پر غور کر کے انہیں درست کریں گے 

آج منگل کے روز   چیف جسٹس کے جاری کردہ تحریری حکم نامے میں تحریر ہے کہ  اکثریتی فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا  میرا فرض ہے، امید ہے اکثریتی جج  اپنی غلطیوں پر غور کر کے درست کریں گے، پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے، امید ہے اکثریتی ججز آئین پاکستان کو دیکھتے ہوئے اپنے فیصلے کی تصحیح کریں گے۔

 انہوں نے مزید لکھا کہ 8 ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرا ہے، 8 اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں، 8 ججز نے اپنی الگ ورچوئل عدالت قائم کی، امید ہے بردار ججز یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے۔

 چیف جسٹس کے مطابق بدقسمتی سے اکثریتی مختصر فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت نہیں ہوسکی، کمیٹی اجلاس میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی مقرر نہ کرنے کا موقف اپنایا، مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا کہا گیا، اکثریتی ججز نے وضاحت کی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی۔

 چیف جسٹس نے مزید لکھا کہ کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد ضروری نہیں، 8 اکثریتی ججز کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، 8 اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں نمٹائی نہیں، جب اپیلیں نمٹائی نہیں گئیں تو کیس زیر التوا سمجھا جائے گا، 8 ججز نے اپیلیں زیر التواء رکھ کر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کو نئی درخواستیں دائر کرنے کا کہا۔

 چیف جسٹس نے مزیدلکھا کہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی، چیف جسٹس کی مدت 3 سال کرنے سمیت آئینی ترامیم کی بات چل رہی تھی، رائے دی کہ مجوزہ آئینی ترامیم سے متاثر یا فائدہ لینے والے ججز بنچ کا حصہ نہ بنیں، ججز کمیٹی اجلاس میں بنچ کی تشکیل سے متعلق میری رائے سے اتفاق نہیں کیا گیا، ترامیم سے متاثر ہونے والے ججز کو الگ نہ کرنے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی رائے دی۔

 چیف جسٹس کے اقلیتی فیصلے کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس میں دیگر ججز سے اختلاف کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کوئی بھی قانون ختم کر سکتی اور بنا سکتی ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے رائے بدل دی، جنرل (ر ) قمر جاوید باجوہ کی 6 ماہ توسیع کا فیصلہ دے دیا گیا، قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، عمران خان،فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور قمر جاوید باجوہ کی توسیع چاہتے تھے، آرمی چیف کی توسیع کے کیس میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جمال مندوخیل کے اقلیتی فیصلے کے مطابق کئی امیدواروں نے اپنی نامزدگی کے کاغذات میں قسم اٹھائی کہ وہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں، امیدواروں کے پاس پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ بھی تھا، کچھ امیدواروں نے پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا، لیکن انہوں نے قسم اٹھائی کہ وہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کا رکن سمجھا جانا چاہیے۔

 اقلیتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے 13 جنوری 2024 کے فیصلے کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو انتخابات کے قواعد کے فارم 33 میں آزاد امیدوار کے طور پر غلط ظاہر کیا گیا، الیکشن کمیشن کو کسی سیاسی جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں، آر اوز اور الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو غیر قانونی طور پر آزاد ڈکلئیر کیا، آر اوز اور الیکشن کمیشن کی غلطی کی سزا 39 ارکان کو نہیں دی جا سکتی، باقی 41 آزاد ارکان کی حد تک ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے تھے۔

 اقلیتی فیصلے میں اتفاق نہیں کیا گیا کہ ارکان اسمبلی 15 روز میں تحریک انصاف میں شامل ہوں، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، جو بھی الیکشن لڑ رہا ہو اسے الیکش سے قبل اپنی متعلقہ پارٹی کا ٹکٹ آر او کو  جمع کرانا ہوتا ہے، جو پارٹی کا ٹکٹ یا ڈکلریشن جمع نہیں کراتا وہ آزاد تصور ہوتا ہے، الیکشن میں آر او کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، آر او الیکشن سے قبل تمام امیدوارں کے نام پارٹی کے انتخابی نشان کے ساتھ آویزاں کرتا ہے، انتخابی رزلٹ بھی آر او کی جانب سے جاری ہونے کے بعد الیکشن کمشن اسے حتمی کرتا ہے، آئین میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے۔

مزیدخبریں