ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار

جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ( امانت گشکوری)سپریم کورٹ آف پاکستان نےجسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ۔

 سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی پنشن بحال کردی ۔سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی پنشن و مراعات بحال کر دیں۔

 سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کا فیصلہ جاری کر دیا گیا ،سپریم کورٹ نے 23 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا،23 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا ہے ۔

 سپریم کورٹ  کے فیصلے کے مطابق شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف اپیلیں منظور کی جاتی ہیں،شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات دی جائیں،کیس تاخیر سے مقرر ہونے کیوجہ سے شوکت عزیز صدیقی کی عمر 62 سال پوری پوچکی ہے۔

 فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمر پوری ہونے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کو عہدے پر بحال نہیں کیا جاسکتا۔

 پس منظر 

 واضح رہے کہ 15 دسمبر 2023 کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیا تھا۔

 گزشتہ روز 22 جنوری کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا تھا۔

 سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی نے بھی کیس کے متعلق جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے، جسٹس (ر) انور کاسی نے بھی اپنے جواب میں شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔اسی طرح برگیڈیئر (ر) عرفان رامے کا جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع ہوگیا اور انہوں نے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات اور ملاقات کی تردید کر دی۔

 خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

 بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے جسٹس پاکستان کو مختلف خطوط لکھے جن میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

 نومبر 2020 کے اختتام پر انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کے نام بھی ایک خط لکھا تھا جو بظاہر ان کا تیسرا ایسا خط تھا جس میں کیس کی جلد سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔

 اس طرح کے ایک خط میں سابق جج نے لکھا تھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کا ان کے لیے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔اس خط کا موضوع شوکت عزیز صدیقی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے آئینی درخواست 2018/76 کے نمٹانے میں طویل تاخیر سے متعلق تھا۔

 خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے۔