ویب ڈیسک :وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے پر مغرب میں رہنے والے مسلمان زیادہ متاثر ہوئے۔پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقیت ہے اور اس حوالے سےاقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
48ویں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے ہے، او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا، اس کے لیے 15مارچ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس روز نیوزی لینڈ میں ایک شخص نے مسجد میں گھس کر مسلمانوں کو قتل کیا تھا، اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کے نزدیک تمام مسلمان دہشتگرد ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بڑھتے ہوئے دیکھا، نائن الیون کے بعد دنیا بھرکے غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل ترین دور شروع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کے سربراہان کو اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کو دہشتگردی سےکس طرح جوڑدیا گیا. وزیراعظم نے کہا کہ مسلم ممالک نے فلسطینی اور کشمیری عوام کو مایوس کیا ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم کسی طرح سے بھی اثر انداز نہیں ہو سکے۔ مسلمان اندرونی طور پرمنقسم ہیں اور بڑی طاقتوں کو اس بات کا علم ہے۔ ہم 1.5 ارب کی آبادی ہیں اور اس کے باوجود اس کھلی ناانصافی کے خلاف ہماری آواز کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہم کسسی ملک پر قبضے کی بات نہیں کرتے بلکہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں
انہوں نے افغانستان کی صورت حال کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان کے لوگوں کو اس قدر پیچھے نہ دھکیلا جائے کہ انہیں اپنی خودمختاری خطرے میں محسوس ہونے لگے۔وزیراعظم نے کہا ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ او آئی سی اور چین مل کر روس اور یوکرین کے تنازع کو روکنے میں کس طرح اپنا کردار کر سکتا ہے۔ اس جنگ کے پوری دنیا پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ پہلے ہی اس جنگ کے باعث گیس اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان کو مدینہ کے طرز ہر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ویزراعظم نے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان خود مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے آگاہ نہیں ہیں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کے ایک عظیم انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست مدیبنہ کے ماڈل کو سمجھیں۔انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ کی دنیا میں آمد کا مقصد انسانیت کو متحد کرنا تھا، انہوں نے ایک جدید نظام تشکیل دیا، انہوں نے کہا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو وہ بھی سزا کی حقدار ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ غریب ممالک پر نظرڈالیں، ان تمام ممالک میں یکساں بات یہی ہوگی کہ وہاں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تاریخ کے پہلے 2 خیلفہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان میں سے ایک خلیفہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے۔انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کے برابرحقوق تھے، قانون کی نظر میں سب برابر تھے، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی جہاں انسانیت کا احساس تھا، غریب اور بزرگوں کو سہارا دیا جاتا۔