ویب ڈیسک:صبح جلدی اُٹھنے کیلئے ہم مختلف قسم کے الارم کا انتخاب کرتے ہیں بیداری کے بعد ذہنی سکون کیلئے ہرفرد کی کوشش یہی ہوتی ہے الارم کی دھن مدھم اورسریلی ہو ۔
کیا نیند سے بیداری کیلئے کوئی ایسی دھن بھی ہوسکتی ہے جسے سن کر جسم کو کچھ انرجی بھی ملے؟یہ سوال 500 قبل مسیح میں یونانیوں نے بھی کیا تھا لیکن اب سائنسدانوں کا جواب یہ ہے بعض اقسام کی فری کوئینسی اور فی منٹ بیٹ والے الارم دماغ کے بیداری والے حصے کو زیادہ سرگرم کرسکتے ہیں۔ اس طرح ہم اچھےانداز میں بیدار ہوسکتے ہیں۔
ابتدائی تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ مائیکل جیکسن کا بچپن میں گایا ہوا ایک گیت ’اے بی سی ‘ اس کی بہترین مثال ہے جو انہیں نے گیارہ برس کی عمر میں گایا تھا۔
اس گانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی فریکوئنسی 500 ہرٹز ہے اور اس میں بیٹس کی تعداد 100 تک ہے۔ یہ دونوں عناصر مل کر ایک ایسی دھن بناتے ہیں جو دماغ کی بیداری کے حصے کو سرگرم کرتے ہیں اور ہم توانائی بھرے انداز میں آنکھیں کھول سکتے ہیں۔
ماہرین نے زور دیا ہے کہ بیدار ہونے کا انداز پورے دن ہمارے بدن پر اثرانداز ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ دن کے امور مثلاً ڈرائیونگ وغیرہ کو بھی مشکل بناسکتا ہے، اس کیفیت کو سائنسدانوں نے ’نیند کا جمود‘ یعنی سلیپ انرشیا کا نام دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صبح کا الارم ایسا ہونا چاہیے جو ایک سوئچ کی طرح کام کرکے ہمیں مکمل طور پر بیدار کرسکتے۔
ماہرین کے مطابق 18 سے 25 سال تک کے افراد میں الارم بلند ہونا چاہیے تاہم الارم کا سائنسی فارمولہ یہ ہوگا۔ الارم کی فری کوئنسی 500 ہرٹز تک ہو اور اس میں دھمک یا بیٹس کا شمار 100 سے 120 ہونا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت چھوٹے بچوں پر بھی یہی فری کوئنسی کے الارم بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔