پہلی پاکستانی  اینیمیٹڈ فلم 'گلاس ورکر' بنانے کے پیچھے کس کا ہاتھ ؟ جانئیے 

22 Jun, 2024 | 03:00 PM

( سٹی42) 2015  میں  بعض لوگوں کو ناممکن لگنے والی اس فلم  ’ گلاس ورکر‘   کی دھوم آج کل قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہے۔ 10 سال کے ’طویل‘ عرصے کے بعد نہ صرف یہ فلم ریلیز کے لیے تیار ہے بلکہ اینیسی اور کانز جیسے فلم فیسٹیولز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہے۔ گلاس ورکر فلم کے ہدایتکار عثمان ریاض  فلم کے حوالے سے بات کرتے  کہنا تھا کہ کسی نے مجھے کہا تھا کہ میں سی جی (CG) ماڈل کی ٹی شرٹ کو ماؤس کی ایک کلک سے ہرے سے نیلا بنا سکتا لیکن آپ کہتے ہیں کہ آپ اسے بیٹھ کر خود بنائیں گے؟  تب میں نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے، ہم انہیں غلط ثابت کریں گے۔

 فلم کی تکمیل اور ریلیز سے پہلے ہی اتنی کامیابی حاصل کرنے پر عثمان کا کہنا تھا کہ وہ خوش تو بہت ہیں مگر 10سال کا انتظار آسان نہیں تھا، ایک طویل عرصے تک مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ فلم کبھی مکمل نہیں ہو پائے گی  مگر اب اس بات کا سکون ہے کہ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور اسے سب کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں۔

عثمان کے مطابق 2015 میں جب وہ پاکستان کے مختلف سٹوڈیوز میں اپنی فلم کے آئیڈیا لے کر گئے تو اس وقت پاکستان میں نہ صرف ہینڈ ڈران اینیمیٹڈ (ہاتھ سے بنی اینیمیشن) بنانے کے لیے ضروری وسائل کی کمی تھی بلکہ جو بڑے سٹوزیوز کام کر رہے تھے وہاں موجود لوگوں کے لیے بھی یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ پاکستان میں ایسی فلم بن سکتی ہے۔ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس وقت جب باقی دنیا اینیمیشن کے دوسری جدید طریقوں کو اپنا رہی تھی، اس میں ہاتھ سے بنی اتنی محنت طلب ٹو ڈی (2D) اینیمیشن کون دیکھے گا؟ وہ سب سوچتے تھے کہ یہ ایک بچگانہ خیال ہے کہ آپ یہ ہاتھ سے اینیمیشن کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آپ ہر ایک فریم کو بیٹھ کر بنائیں گے؟ مجھے ابھی تک یاد ہے کسی نے کہا تھا کہ میں سی جی ماڈل کی ٹی شرٹ کو ہرے سے نیلا ماؤس کی ایک کلک سے کر سکتا ہوں اور آپ اسے بیٹھ کر خود بنائیں گے؟

عثمان ریاض کا مزید کہنا تھا  کہ میں  ان سٹوڈیوز سے کافی غصے میں نکلا لیکن پھر میں نے سوچا کہ ٹھیک ہے، ہم انہیں غلط ثابت کریں گے۔ یہ کام بالکل آسان نہیں تھا اور ان کے لیے صبر آزما تھا  مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بالآخر سب کچھ ٹھیک سے مکمل ہو گیا۔ لیکن انہوں نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا کہ جنھوں نے کہا تھا کہ تم پاگل ہو۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تب کم عمر تھا، نا سمجھ تھا اور بہت پرجوش بھی۔

عثمان ریاض نے بتایا  کہ میں اکثر لوگوں کو کہتا ہوں کہ یہ واقعی ہاتھ سے بنی ہوئی ہے، اس کی اینیمیشن ہاتھ سے کی گئی ہے اور یہ ایک چلتی پھرتی پینٹنگ ہے۔ اس فلم کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کو یہ سوال کرتے پایا گیا کہ ’ہینڈ ڈران‘ یا ہاتھ سے بنی فلم کا مطلب ہے کیا؟اُنہوں نے بتایا کہ ٹو ڈی اینیمیشن اور سی جی اینیمیشن میں کافی فرق ہوتا ہے۔   ٹو ڈی اینیمیشن فلم میں ہرایک فریم کو ہاتھ سے بنایا جاتا ہے۔ بیک گراؤنڈز الگ سے پینٹ ہوتے ہیں اور پھر کرداروں کی تمام حرکات اور ایکٹنگ یا ہر چھوٹے سے چھوٹا سٹیپ ہاتھ سے ہی بنایا جاتا ہے۔ اسے فریم بائے فریم اینیمیشن کہتے ہیں۔ تو آپ کو ہر ایک پوزیشن کو خود ہاتھ سے بنانا ہوتا اور امید ہوتی ہے کہ یہ سب مل کر ایک ساتھ ایک اچھی شکل اختیار کر لے گا۔ یہ بہت محنت اور باریکی کا کام ہے۔

عثمان نریاض کا فلم سے متعلق کہنا تھا  کہ وہ ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ ان کی فلم ایک اینٹی وار یعنی جنگ مخالف فلم ہےکیونکہ   جنگ ایک اچھی چیز نہیں۔ کراچی میں بڑے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل ہوتے دیکھا۔ باالخصوص 11 ستمبر2001 کے واقعے کے بعد حالات میں کشیدگی آ گئی۔ ہم ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہے،  اپنے اردگرد تمام مشکل حالات ہونے کے باوجود ہم نے آگے بڑھنے اور زندہ رہنے کی وجوہات تلاش کیں جبکہ فلم میں بھی اسی موضوع پر بات ہوئی ہے۔

پاکستان میں وسائل کی کمی کے بائث فلم کی پروڈکشن متاثر ہونے سے متعلق عثمان ریاض کا کہنا تھا  کہ ہاتھ سے ہینڈ میڈ اینیمیشن پاکستان میں بنانی بہت مشکل ہے  سنہ 2014 میں فلم کا آئیڈیا یا خیال آنے کے بعد اس کو مکمل کرنے میں 10 سال ضرور لگے لیکن فلم کی اصل پروڈکشن میں 4 سال سے کچھ زیادہ وقت لگا۔  شرمین عبید چنوئے کی اینیمیٹڈ سیریز ’تین بہارد‘ سے وہ متاثر تھے مگر فلم بنانے کے ابتدائی سالوں میں ان کا ارادہ تھا کہ فلم کو بیرون ملک بنایا جائے کیونکہ انڈیپنڈنٹ فلم اور اینیمیٹڈ فلم بنانے کے لیے پاکستان میں سہولیات کی کمی تھی مگر جاپان کے کچھ نمایاں سٹوڈیوز کے دورے کے بعد انہوں نے پاکستان میں فلم بنانے کا ارادہ کر لیا۔انہیں  (جاپان کے سٹوڈیوز) نے بھی یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنا اینیمیشن سٹوڈیو کھولیں اور اسے پاکستان میں بنانے کی کوشش کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ میں اس کے بارے میں مذاق کرتا ہوں کہ  شاید وہ اس وقت مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اُن کا یہ مشورہ میرے دل کو لگا اور میں  نے پاکستان میں اپنے کزن خضر ریاض اور مریم پراچہ جو اب عثمان کی اہلیہ بھی ہیں، ان کے ساتھ مل کر اپنا ’مانو انیمیشن سٹوڈیو‘ کھولا جبکہ بعض ٹیم ممبرز کے والدین اینیمیٹڈ فلم پر کام کرنے کے خلاف تھے۔ فلم کی پروڈکشن کے لیے مزید اینیمیٹرز اور ایک ٹیم کی ضرورت تھی۔ عثمان نے بتایا کہ بہت سے ٹیم ممبرز کو ٹیم میں شامل کرتے ہوئے ان کے گھر والوں کو راضی کرنا پڑ رہا تھا کہ وہ انہیں اس فلم پر کام کرنے کی اجازت دے دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر پاکستان میں اگر آپ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن رہے تو آپ ایک ناکام انسان سمجھے جاتے ہیں  جو ہمارے اینیمیٹرز تھے، جو مانو سٹوڈیوز میں کام کرنا چاہتے تھے، وہ انٹرویو دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہم راضی ہیں مگر آپ کو ہمارے والدین کو سمجھانا پڑے گا۔ میں نے ان کے والدین سے بات کی، اینیمیٹڈ فلم پر کام کرنے اہمیت اور ان کے بچوں کے شوق کو بیان کیا اور اس طرح انہیں راضی کر لیا۔ میں انہیں بچے کہہ رہا ہوں مگر وہ 20، 21سال کے نوجوان تھے لیکن پھر بھی  اُن کے والدین آخر کار مان ہی گئے۔ عثمان نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ٹیم نے کام کے دوران بھی اپنے اینیمیشن کے ہنر کو مزید بہتر کیا۔ وہ پاکستان میں موجود اپنی ٹیم کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں موجود اپنی ٹیم کے کارکردگی اور تعاون پر بھی بہت خوش تھے۔

واضح رہے کہ اس فلم کی ریلیز جولائی 2024 میں پاکستانی سینما گھروں میں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں متوقع ہے۔ یہ فلم برصغیر کی پہلی فلم ہے جسے اینیسی انٹرنیشنل اینیمیشن فلم فیسٹیول 2024 میں مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا گیا ہے۔


محبت، جنگ، سماج اور آزاد فکر پر مبنی یہ فلم دو کرداروں ونسنٹ اور الیس کے گرد گھومتی ہے۔ اس فلم کی کہانی میں ونسنٹ اپنے والد کے ساتھ شیشے کی ایک ورکشاپ چلاتے ہیں۔ ان کی زندگی اس وقت بدلتی ہے جب الیس کی اپنے والدین سمیت ان کے علاقے میں آمد ہوتی ہے۔ فوج کے ایک کرنل کی بیٹی الیس وائلن بجانے کا ہنر جانتی ہیں۔ ملک میں ہونے والی جنگ سب کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ اسی دوران ونسنٹ اور ایلیز کے درمیان پیدا ہونے والی محبت کو ان کے باپ دادا کے مختلف خیالات سے مسلسل چیلنج کیا جاتا ہے۔ فلم میں ایک ایسا دور دکھایا گیا ہے جس میں حب الوطنی اور سماجی موقف کو آزاد فکر اور فنکارانہ مشاغل سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے اور جہاں محبت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

مزیدخبریں