ملٹری کورٹس کے کیس میں قاضی فائز عیسیٰ نے خود کو الگ کرلیا، جسٹس طارق بھی اٹھ کر چلے گئے بنچ ٹوٹ گیا، چیف جسٹس نے بھی نیا بنچ بنادیا لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی میرے دوست پکچر ابھی باقی ہے مکمل عدالتی کارروائی اور مائیکل کے تابوت کا قصہ حاضر ہے۔
مائیکل مر چکا تھا۔ کروڑوں ڈالر کی وراثت، اخلاقی گناہوں میں ملوث اسکی تیسری بیوی، اسکے اعتماد کو قتل کرنے اور اسکی پہلی دوسری بیویوں کے ساتھ معاشقہ کرنے والے اس کے یار دور پار کے رشتے دار اور کسی امریکی ریاست میں موجود جائز ناجائز بچے وہ چھوڑ کر مرا تھا۔ تدفین کا وقت قریب تھا جیسے جیسے پادری آخری رسومات کیلئے بلند آہنگ سے پڑھتا جاتا تھا اس کی بیوی اور اس کے یار رونے کی بلند و بانگ اداکاری کر رہے تھے۔ اچانک کسی نے آواز لگائی تابوت میں ایک کیل کم ہے اس کی روح کسی بھی وقت تابوت میں داخل ہوسکتی ہے اور یہ دوبارہ زندہ ہوکر اپنے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکتی ہے، روح کی بات سننا تھی کے مائیکل کی بیوی نے ایک بوڑھے مربی کی جانب اشارہ کیا اُس نے کیل نکالا اور تابوت میں ٹھونکتے ہوئے کہا یہ آخری کیل میری طرف سے مائیکل کے جسم کو روح سے الگ رکھنے کے نام پر اور یوں مائیکل کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سلا دیا گیا۔
خبر یہ ہے کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے جسٹس فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس آف پاکستان نقرری پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد ایکسٹینشن کا بھوت اور افواہیں بلکل دم توڑ گئی ہیں۔ عمران ازم کے تابوت میں یہ دستخط ہی وہ آخری کیل ہے جسے بوڑھے مربی نے ٹھوک دیا ہے۔
80 کی دہائی میں جب پاکستان اسلامی جمہوری اتحاد اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے بنایا جس کی نمایاں جماعتوں مں مسلم لیگ جو آج کل ’ن‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے جماعت اسلامی کی سربراہی قبول کرچکی تھی۔
سوشل میڈیا تھا نہیں سرکاری ٹی وی اور پریس ٹرسٹ کے زیر اہتمام چھپنے والے اور مشروط آزادی اظہار رکھنے والے اخبارات بھی صرف وہی لکھا چھاپا کرتے تھے جس کا حکم دیا جاتا تھا اور یہ سب سیاسی خبروں پر مشتمل ہوتا تھا، لیڈ، سپر لیڈ کیا چھپے گی، بیک پیج کا ڈیزائن کیا ہوگا، یہاں تک کے میٹر یعنی مواد کون لکھے گا کون نہیں اس کا فیصلہ بھی صاحب بہادر کیا کرتے تھے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی نام میں ’اسلامی‘ ہونے کے باعث مقبول ترین پارٹی مسلم لیگ کے بجائے جماعت اسلامی کو دے دی گئی جس کے سربراہ قاضی حسین احمد کو دے دی گئی، جماعت اسلامی جو افغان وار کے ذریعے عسکری اور سمعی و بصری معاملات میں کافی مہارت حاصل کر چکی تھی، نے میڈیا کا بھرپو فائدہ اٹھایا، محترمہ بے نظیر بھٹو کیخلاف چلائی جانے والی اس مہم میں ترانے اور کیسٹ ریکارڈ کیے گئے اور ہر جلسے میں ان ترانوں کو بجایا جاتا تھا۔ چند کیسٹ مفت تقسیم کیے جاتے تھے ان ترانوں کی شاعری تھی ہی ایسی کہ آج بھی یاد ہے ایک ترانہ تھا:
بی بی جی کھیڑا جان دیو
ہُن نوی قیادت آن دیو
ہُن سُن لے گل غریباں دی
نہ مچھلی تل غریباں دی
ان ترانوں کے ساتھ ساتھ ایک نعرہ بھی ایجاد کیا گیا ’ظالمو قاضی آرہا ہے‘۔
آج جب ملٹری کورٹس کیخلاف جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کی درخواست کیلئے 9 رکنی بنچ بنایا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس کے بعد یہ نعرہ اور تابوت کا آخری کیل مجھے یاد آگیا آپ بھی ریمارکس پڑھیں اور سمجھیں قاضی آ نہیں رہا آگیا ہے۔
’سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق تین رکنی کمیٹی سماعت بارے فیصلہ کرے گی، مجھے رات کو آٹھ بجے کیس کی سماعت کا بتایا گیا،
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کو جولائی تک ملتوی کیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس سے متعلق رائے نہیں دونگا کیوں اس بنچ کا حصہ نہیں ہوں، تعجب ہوا کہ کل رات 8 بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا، مجھے دکھ، صدمہ اور تعجب ہوا کہ رجسٹرار نے 15 مارچ کا میرا فیصلہ نظرانداز کرنے کا سرکلر جاری کیا، اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بنچ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین میں رولز بنائے جائیں، میرے فیصلے کو واپس لینے کا حکم جاری ہوا کیا یہ سپریم کورٹ کی عزت ہے، میرے نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا، میں آئین و قانون اور حلف کے مطابق فیصلے کروں گا، مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں عمران خان نیازی کی بھی درخواست تھی، عمران خان کی درخواست پر اعتراض لگایا اور انہوں نے پہلے درخواست دائر کی تھی، آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، سب سے معذرت چاہتا ہوں کہ ججز کو زحمت دی، میں بنچ سے اٹھ رہا ہوں، یہ عدالت نہیں ہے جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ نہیں ہوتا‘۔
ان تمام ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو بنچ سے الگ کرکے سات رکنی بنچ بنا دیا، اب 17 ستمبر کو جب قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں ہونے والے فیصلوں کا کیا حشر ہوگا، اسے بس یوں سمجھیے کے سیاسی مائیکل عمران خان کی سیاسی زندگی میں وہ روح داخل نہیں ہوسکے گی کیونکہ قاضی نامی آخری کیل بوڑھا مربی ٹھونک چکا۔