مانیٹرنگ ڈیسک: برطانوی نشریاتی ادارے نے پاکستان میں انسانی اسمگلرز کے دھندے کا کچا چٹھا کھول دیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلرز کا سوشل میڈیا پر دھندا عروج پر ہے، انسانی اسمگلرز کی جانب سے یورپ تک پہنچانے کے جھانسے دیے جانے لگے، فیس بُک اور ٹک ٹاک پر سہانے خواب دکھائے جانے لگے، واٹس ایپ پر رابطہ کرنے پر ترکی تک پہنچانے کے ریٹس بتائے جاتے ہیں، نارمل، وی آئی پی اور فل وی آئی پی پروگرام کے پیکجز دیے جاتے ہیں۔
پنجاب سے کوئٹہ، کوئٹہ سے ایران اور ایران سے ترکی لے جانے کا سفر سڑک سے ہوتا ہے پھر ترکی سے یونان کیلئے سمندری راستہ چنا جاتا ہے۔
بی بی سی نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ پیجز کو بلاک کرنے کے لیے ڈائریکٹر جنرل کی ہدایات کا انتظار ہے۔
یونان کشتی حادثہ
یونان کے ساحلی علاقے میں 14 جون بروز بدھ کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر کشتی ڈوبنے سے 78 افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن گزشتہ دنوں مزید دو لاشیں ملیں تھیں جس کے بعد اموات کی تعداد 80 ہوگئی اور104 کو بچالیاگیاتھا جن میں سے 12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 تارکین وطن سوار تھے۔
کشتی میں سوار پاکستانیوں کی تعداد سے متعلق متضاد اطلاعات ہیں، غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق تعداد 400 کے قریب تھی، زندہ بچ جانے والوں نے سفارتی عملے کو بتایا کہ کم از کم 200 پاکستانی سوار تھے۔
کشتی حادثے پر ملک میں سرکاری سطح پر یوم سوگ بھی منایا گیا تھا۔