ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

صدر ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس میں پہلا دن امریکہ کو ماحول کے دشمنوں کی صف میں لے گیا

Dwnald Trump, President Joe Biden, City42, Paris Accord, Climate Action, Fusel Fuel reduction, The US oil production, city42
کیپشن: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس مین پہلے ہی دن صدر جو بائیڈن کے بہت سے اقدامات کو ریورس کر ڈالا اور ماحول کے تحفظ کی پوری ریجیم کو ہی روند ڈالنے کے راستے پر چل نکلے۔ انہوں نے پیرس معاہدہ سے امریکہ کو نکالنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کر دیئے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: حساس ڈیموکریٹک سوچ رکھنے والے حساس مستقبل بین بتا رہے تھے کہ "ٹرمپ آئے گا تو ڈیزاسٹرلائے گا"، تو بیشتر حال مست اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں قدم ڈالتے ہی امریکہ کو پیرس معاہدہ سے باہر نکال لیا، فوسل فیول کی پیداوار بڑھانے والے اقدامات کی یلغار کر دی اور"سب سے پہلے امریکہ " کے مفاد کا راستہ اختیار کر کے دنیا کے ممالک کو ماحول پر اپنے اپنے وقتی مفاد کو فوقیت دینے کی راہ دکھا دی۔  

پیر کے روز، ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹے بعد، کیپٹل ون ایرینا میں حامیوں کے سامنے اسٹیج پر ایک آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے، دوبارہ  امریکہ کو پیرس معاہدہ سے نکالنے کا عمل شروع کر  دیا۔

پیرس معاہدہ کے نام سے مشہور بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدے کے تحت، پہلی بار 2015 میں بات چیت ہوئی تھی، دنیا بھر کے ممالک نے گلوبل وارمنگ کو محدود کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کو روکنے کی کوشش میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن امریکہ ان مین شامل نہین تھا حالانکہ امریکہ کی انڈسٹریز گلوبل وارمنگ کا برا سبب ہیں۔ ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما کی حکومت مین امریکہ پیرس معاہدہ کا حصہ تھا۔

2016 میں ٹرمپ  صدر بنے تو انہوں نے ے دلیل دی ہے کہ اس معاہدے سے "امریکی معیشت پر غیر منصفانہ بوجھ پڑتا ہے"، اور  وائت ہاؤس میں اپنی پہلی مدت کے دوران یہ کہتے ہوئے ٹرمپ نے امریکہ کی پیرس معاہدہ سے دستبرداری اختیار کر لی تھی ۔ 

امریکہ میں نئے صدارتی الیکشن کے بعد ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کی حکومت بنی تو  2021 میں  صدر جو بائیڈن نے  تحت باضابطہ طور پر دوبارہ شامل ہوئے۔

کل پیر کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی تقریر کی تو انہوں نے کہا،  "میں فوری طور پر غیر منصفانہ، یکطرفہ پیرس آب و ہوا کے معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہوں۔"، "امریکہ ہماری اپنی صنعتوں کو سبوتاژ نہیں کرے گا جب کہ چین آلودگی پھیلا رہا ہے۔"

پاساڈینا، ٹیکساس میں جون 2024 میں شیورون پاسادینا ریفائنری کے قریب تیل ذخیرہ کرنے والے کنٹینرز کا ایک فضائی منظر۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عہدے کے پہلے اقدامات میں سے ایک کے طور پر قومی توانائی کی ایمرجنسی کا اعلان کر رہے ہیں۔


پولیٹکس
چین اس وقت گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے بڑا عالمی اخراج کرنے والا ملک ہے، حالانکہ یہ قابل تجدید توانائی کی پیداوار بڑھانے میں بھی دنیا مین سب سے آگے آ چکا ہے۔ امریکہ میں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 2000 کی دہائی کے وسط سے کم ہو رہا ہے، لیکن یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعی اخراج میں سب سے بڑا تاریخی شراکت دار ہے۔

پیرس معاہدے سے نکلنے کا اقدام کوئی تعجب کی بات نہیں تھی، اس لیے کہ ٹرمپ کی مہم نے مہینوں پہلے اس اہم ترین ماحولیاتی معاہدہ سے نکلنے کا  اشارہ دیا تھا۔

لیکن 20 جنوری کو ٹرمپ کا یہ اعلان دنیا کی تاریخ کے ریکارڈ گرم ترین سال کے بعد آیا ہے۔ خود امریکہ بھی ماحولیاتی اتھل پتھل کے لائے ہوئے ڈیزاسٹر کا شکار ہے جہاں لاس اینجلس میں جنگل کی بڑی آگ اب بھی جل رہی ہے، اور تباہ کن سمندری طوفان فلوریڈا سے شمالی کیرولائنا تک کمیونٹیز کو نشانہ بنے ابھی محض چند ہی مہینے ہوئے ہیں۔ ک

 موسمیاتی تبدیلی سمندری طوفانوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہے، زیادہ شدید بارشیں چلا رہی ہے، اور جنگل کی آگ جیسے حادثات کو مزید شدید اور تباہ کن بنا رہی ہے۔

ماحول کے ڈیفینڈرز کی ٹرمپ پر سخت تنقید
ماحول کے تحفظ کے لئر کام کرنے والے گروپوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کی سخت تنقید کی۔ ایک ماحولیاتی نگران گروپ، ، یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس کے پالیسی ڈائریکٹر، ریچل کلیٹس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے انسانی اور معاشی نتائج تبھی بڑھیں گے جب یو ایس۔ گرمی کو محدود کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالے گا۔

کلیٹس نے کہا، "ابھی بھی… ہم یہ خشک سالی، طوفان، گرمی کی لہریں، سیلاب، سطح سمندر میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں۔" "یہ پہلے سے ہی حیرت انگیز ہے کہ اس قسم کے اثرات جو سامنے آ رہے ہیں۔"

 یورپی کلائمیٹ فاؤنڈیشن کی خاتون چیف ایگزیکٹو  اور پیرس معاہدے کی معمارلارنس ٹوبیانا، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ U.S کا معاہدے سے باہر نکلنا بدقسمتی ہے. لیکن، انہوں نے کہا، بین الاقوامی کلائمیٹ ایکشن"کسی ایک ملک کی سیاست اور پالیسیوں سے زیادہ مضبوط ہے۔"

ٹوبیانا نے کہا، "اس لمحے ہم کو 'نظام کی اصلاح کے لیے ایک ویک اپ کال" کے طور پر کام کرنا چاہیے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے - کمیونٹیز اور فرنٹ لائنز پر موجود افراد - ہماری اجتماعی گورننس کے مرکز میں ہیں۔"

ایک ایمبیشئیس گلوبل ٹول - جو اب تک کام نہیں کر پایا
پیرس معاہدے کے تحت، دنیا کے تقریباً ہر ملک نے گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) تک محدود کرنے کے ہدف پر اتفاق کیا ہے جو دنیا کی انڈسٹریلائزیشن سے پہلے کی سطح سے زیادہ ہے۔

لیکن دنیا فی الحال ان اہداف کو پورا کرنے کے راستے پر نہیں  آ سکی ہے۔ پچھلا سال 2024 انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ گرم رہا، کیونکہ عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے ارد گرد منڈلا رہا تھا۔

پیرس معاہدے کی شرائط کے ایک حصے کے طور پر، اس کے رکن ممالک اخراج میں کمی کے لیے اہداف جمع کرتے ہیں اور اپنی پیش رفت پر وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ فراہم کرتے ہیں۔

صدر جو بائیڈن کا وعدہ  امید کا پھول، جسے ٹرمپ نے جوتے تلے مسل ڈالا

صدر جو بائیڈن نے صدارت کا عہدہ چھوڑنے سے کچھ پہلے ایک نئے امریکا  کا اعلان کیا تھا اور یہ طے کیا تھا کہ:  2035 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو چوٹی کی سطح سے 60 فیصد سے زیادہ کم کرنا، ایک ایسا مقصد جس کے لیے ممکنہ طور پر فوسل فیول سے دور تیزی سے منتقلی کی ضرورت ہوگی۔ وہ ہدف اب ختم ہو چکا ہے۔

پیر کو غیر معمولی سرعت سے  دستخط کیے گئے حکم نامے میں،صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقوام متحدہ  کےسفیر کو ہدایت کی کہ امریکہ کا  پیرس معاہدہ سے باہر نکلنے کا باضابطہ نوٹس جمع کرائیں۔  (ٹرمپ کی جانب سے اقوام متحدہ میں سفیر کے لیے نامزد کردہ، نیویارک کی ریپبلکن کانگریس وومن ایلیس اسٹیفانک کی ابھی تک سینیٹ نے تصدیق نہیں کی ہے۔

 صدر ٹرمپ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ U.S کے ایک بار نوٹس دیے جانے کے بعد دستبرداری "فوری طور پر" مؤثر ہو جائے گی۔

پیرس معاہدہ خود یہ بتاتا ہے کہ کوئی ملک اس سے نکلنا چاہے تو نکلنے کے عمل میں پورا سال لگتا ہے۔

اگرچہ ٹرمپ نے امریکہ کو  پیرس معاہدے سے، ان کے دفتر میں پہلی مدت کے دوران بھی نکال لیا تھا، اسے چھوڑنا آسان نہیں تھا۔ انتظامیہ اپنے پہلے چند سالوں کے دوران معاہدے سے باہر نکلنے پر پابندیوں کی پابند تھی۔ اس میں بالآخر تقریباً چار سال لگ گئے تھے۔  U.S ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی موسمیاتی پالیسی اور سیاست کی قیادت کرنے والے ڈیوڈ واسکو نے کہا کہ اس چار سال کے عرصہ کے دوران بھی امریکہ دراصل معاہدے سے باہر تھا۔

"اس بار یہ بہت مختلف ہے،" واسکو نے کہا۔

واسکو نے کہا کہ (اب سنہ2025 میں) پیرس معاہدے کو چھوڑنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، ممکنہ طور پر امریکہ کو سائیڈ لائن کر دیا جائے گا۔  کچھ صاف توانائی اور گرین ٹیک مارکیٹوں سے امریکہ کو محروم ہونا پڑے گا۔ اور دوسرے ملکوں پر لیوریج بھی کم ہو گا۔ اس سے امریکہ کے لیے ٹرمپ کے کچھ وسیع تر اقتصادی اہداف میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔

ٹرمپ قابل تجدید توانائی کے بہت سے اقدامات اور دیگر کلائمیٹ ایکشن اقدامات کے مخالف رہے ہیں جن میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی سربراہی کے لیے ان کے نامزد کردہ، لی زیلڈن، نے اپنی تصدیقی سماعت میں انسانوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت کو تسلیم کیا، لیکن اشارہ دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ بہت سے ماحولیاتی ضوابط کو واپس لینے کی کوشش کرے گی۔

فوسل فیول کے استعمال کو پھر سے بڑھانا، صدر بائیڈن دور کی کلائمیٹ ایکشن کی کوششوں کو منسوخ کرنا
ٹرمپ نے پیر کے روز دیگر "احکامات کا بیراج" (بیک واقت فائر کئے گئےراکٹوں یا میزائلوں کے جتھہ)بھی جاری کیا جن کا مقصد فوسل فیول کے استعمال کو پھر سے بڑھانا  ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے بائیڈن دور کے اقدامات کو کالعدم کرنا ہے۔  ٹرمپ نے قومی توانائی کی ایمرجنسی کا اعلان کیا اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق صدر جو بائیڈن کے کئی ایگزیکٹو آرڈرز کو منسوخ کر دیا۔ نئے احکامات ایجنسیوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ آف شور ڈرلنگ پر پابندیاں واپس لیں اور الاسکا کے آرکٹک نیشنل وائلڈ لائف ریفیوج کے تحفظات پر نظر ثانی کریں۔

ہوا سے بجلی بنانے کے پروجیکٹس کیلئے پرمٹ روک دیئے

ٹرمپ نے وفاقی زمینوں پر نئے ونڈ پاور پراجیکٹس پر موقوف بھی جاری کیا، ساحل اور آف شور دونوں ونڈ فارمز کے لیے نئی لیز اور پرمٹس کو روک دیا۔ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کو منسوخ کر دیا جس نے حکومتی ریگولیٹرز کو مالیاتی نظام میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا جائزہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ اور ٹرمپ نے ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ ایسے کسی بھی ضابطے کا جائزہ لیں جو  " توانائی کے ڈومیسٹک وسائل(امریکہ سے نکلنے والے فوسل فیول) کی ترقی پر بوجھ ڈالیں۔"

اس میں صدر جو بائیڈن انتظامیہ کی آب و ہوا کی بڑی پالیسیاں شامل ہوسکتی ہیں، بشمول کوئلے اور گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس سے اخراج کو محدود کرنے والے EPA کے قوانین اور تیل اور گیس کی صنعت سے میتھین کے اخراج پر نئی فیس۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے ہی روز کے اقدامات پر دنیا کے ؟حساس ذہن تو سکتے میں ہیں اور حکومتیں یا تو ان اقدامات کو مزید سٹڈی کر رہی ہیں یا محتاط ردعمل دینے کے لئے داخلی مشاورتین کر رہی ہیں، آنے والے دنوں میں حکومتوں کا ردعمل کچھ بھی ہو، پہلے ہی روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کم از کم ماحول کے تحفظ کی جدوجہد کی حد تک یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اور ڈیزاسٹر بظاہر مختلف لیکن دراصل مترادف الفاظ ہی ہیں۔