سٹی42: حماس کے سات اکتوبر 2023 کے وحشیانہ حملوں سے چھڑنے والی جنگ میں فلسطینیوں نے کیا کچھ کھویا، اس کی تفصیلات پہلے بھی سامنے آتی رہیں لیکن غزہ میں جنگ بندی کے بعد غزہ کی تباہی کی تفصیلات کے ساتھ زیادہ مکمل تفاصیل سامنے آئی ہیں۔
فلسطین کے حماس کے زیر کنٹرول علاقہ غزہ سے سات اکتوبر کی صبح ہزاروں مسلح افراد کے اسرائیل کے اندر گھس کر آبادیوں پر حملوں، قتل عام اور ڈھائی سو افراد کو اغوا کر کے غزہ لے آنے کے چند گھنٹے بعد ہی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں، دفاتر اور دیگر مراکز کو نشانہ بنانے کے نام پر شہر بھر کو ککھنڈر بنانے کا آغاز کر دیا تھا۔ درجنوں ہسپتال، سکول بمباریوں کا نشانہ بنے، نومولد بچے علاج سے محروم ہو کر مرے اور ہسپتالوں کے نیچے غزہ پع سولہ سال سے قابض حماس کی جنگی مقاصد کے لئے بنائی ہوئی سرنگیں نکلیں۔ پندرہ ماہ کے دوران درجنوں سنگین تباہ ہوئیں لیکن ان کے ساتھ ہسپتال، مساجد، سکول اور رہائشی بلاک بھی ملبہ کا ڈھیر بنے اور ساری غزن آبادی کو حماس کے ایدونچر کی ناقابل بیان قیمت چکانا پڑی۔
غزہ میں بحران کا آغاز
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد ہی غزہ میں حماس کے معروف ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز ہو گیا تھا، کچھ روز بعد اسرائیل کی زمینی فوج بھی شہر کے بعض علاقوں مین آ گئی تھی لیکن غزہ مین بڑے بحران کا آغاز دسمبر کی پہلی تاریخوں مین ہوا جب اسرائیل نے حماس کے خلاف بڑے پیمانہ پر کارروائی کے لئے شہر کے کئی علاقوں کو سویلین آبادی سے مکمل خالی کروانے کا آغاز کیا۔ غزہ میں بحران 1 دسمبر 2023 کو انخلاء کے احکامات جاری کرنا شروع ہوئے، اسرائیل کی فورس نے حماس کے شہر میں موجود جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کے لئے شہر کو 620 علاقوں میں تقسیم کیا اور شہری آبادی کو ان علاقوں سے سیف زونز قرار دیئے گئے علاقوں میں بھیج دیا۔ سال 2024 کے وسط تک، غزہ کی تقریباً دو تہائی آبادی کو سیف زون قرار دیئے گئے علاقوں مین بنے پناہ گزین کیمپوں میں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اضافی انخلاء کے احکامات نے جولائی تک پورے علاقے کے 83 فیصد کو نقل مکانی کی ہدایات کے تحت رکھا تھا۔
عرب میڈیا میں حماس کے ذرائع کی جانب سے غزہ جنگ کے 470 دنوں کے دوران ہونے والے نقصانات کے دل دہلا دینے والے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
چار سو ستر دن کی جنگ میں ہلاک ہونے والے 46 ہزار 960 افراد موت کے منہ مین گئے جن میں بچے، خواتین اور حماس کے کارکن سبھی شامل تھے۔
غزہ کے 2 ہزار 92 خاندان مکمل طور پر مٹ گئے جبکہ 4 ہزار 889 خاندانوں کا صرف ایک فرد اس جنگ میں زندہ بچا ہے۔
ایک سال سے کم عمر کے 808 بچے اس جنگ میں شہید ہوئے جبکہ 44 بچے خوراک کی قلت اور 8 شدید سردی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ شہید ہونے والے 214 بچے اسی جنگ کے دوران پیدا ہوئے تھے۔
جنگ میں ایک لاکھ 10 ہزار 725 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے 15 ہزار زخمیوں کو طویل عرصے تک علاج کی ضرورت ہے۔
اسرائیلی حملوں میں غزہ کے ایک لاکھ 61 ہزار رہائشی یونٹس مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
زخمی ہونے والے افراد میں 4 ہزار 500 افراد کو جسم کے مختلف اعضا سے محروم ہونا پڑا، ان زخمیوں میں 18 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ 38 ہزار 495 بچے اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے جنگ کے 470 دنوں میں غزہ پر ایک لاکھ ٹن بارود برسایا۔
غزہ کے 162 مراکز صحت پر حملے ہوئے، 80 ناقابل استعمال ہو گئے۔ جبکہ اسرئیلی فوج نے غزہ کے 34 اسپتالوں پربھی حملے کیے، انہیں آگ لگائی اور ناقابل استعمال بنادیا۔
137 اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں جبکہ 357 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
غزہ کی 823 مساجد مکمل تباہ ہوگئیں اور 158 مساجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا جبکہ 3 گرجا گھر بھی اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنے۔
ہوائی حملوں میں غزہ کی بہت سی رہائشی عمارات تباہ ہوئیں، بہت سی عمارات رہنے کے لئے خطرناک ہو گئیں۔ ایک لاکھ 61 ہزار رہائشی یونٹ تباہ ہوگئے، 82 ہزار رہائشی یونٹس رہائش کے قابل نہیں رہے جبکہ ایک لاکھ 94 ہزار رہائشی یونٹس کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
جنگ بندی کے بعد سرسری جائزہ سے اندازہ ہوا کہ غزہ کے 60 قبرستانوں میں سے 19 جزوی طور پر تباہ ہوگئے۔ حماس کے ذرائع نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل نے قبرستانوں سے 23 سو لاشیں چرا لی ہیں لیکن سر دست ان الزامات کی تحقیق کا کوئی آزاد ذریعہ دستیاب نہیں۔