دلیپ کو فلمی دنیا میں کس نے متعارف کرایا، پہلی فلم کا کتنا معاوضہ ملا۔۔۔(سلیم بخاری)

22 Feb, 2021 | 06:37 PM

Arslan Sheikh

قسط سوئم

”جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو“
دلیپ کمار

دلیپ کمار پر لکھنے کا سلسلہ نہ چاہتے ہوئے بھی طویل ہو گیا مگر کوئی کیا کرے،وہ اداکار تو عظیم ہیں ہی،وہ ایک اعلیٰ ظرف اور سلیقہ مند شخصیت بھی ہیں اور ان کی ہشت پہلو ذات سے منسلک اتنی کہانیاں ہیں کہ اگر سب پر لکھاجائے تو کئی کتابیں تحریر ہو جائیں گی۔یہ حقیقت تو اب سبھی جانتے ہیں کہ دلیپ کمار کو فلمی دُنیا میں لانے کا سہرا دیویکارانی کے سر ہے جنہوں نے ایک جوہری کی نظر سے یوسف خان میں وہ ہیرا تلاش کیا جس نے آگے جا کر بے شُمار گولڈن جوبلی اور پلاٹینم جوبلی فلمیں بنائیں اور پانچ دہائیوں تک وہ بھارت اور دیگر ممالک میں فلم بینوں کی تسکین کا باعث بنے رہے۔دیویکارانی جو بمبئی ٹاکیز سٹوڈیو کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک کامیاب اداکارہ تھی،اس نے پہلا کام تو یہ کیا کہ یوسف خان کا نام بدل کر دلیپ کمار رکھ دیا۔ یہ 1942ءکی بات ہے جب دیویکا نے دلیپ کمار کو 1250 روپے ماہوار معاوضہ کی پیشکش کی تو دلیپ کو یوں لگا کہ یہ شاید ایک سال کا معاوضہ ہے لہٰذا انہوں نے دیویکارانی کے پی اے سے پوچھا کہ کیا میں نے صحیح سُنا کہ یہ ماہانہ معاوضہ ہے۔اس کے مثبت جواب پر دلیپ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئے۔

٭” جوار بھاٹا“ کی ریلیز کے بعد ایک بھارتی میگزین نے دلیپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا

 فلم ” جوار بھاٹا“کے پہلے منظر کے فلمائے جانے کی داستان بھی سُنیں۔اس منظر میں دلیپ کو بھاگ کر ہیروئن کو بچانا ہوتا ہے۔ان کے فہم میں دوڑنے کامطلب پوری رفتار سے بھاگ کر ہیروئن کو بچانا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ فلم کی ہیروئن مریدولا تک پہنچتے،ڈائریکٹر نے چیخ کر کٹ کا نعرہ بلند کیا اوردلیپ سے کہا کہ جس رفتار سے آپ بھاگ رہے ہیں ہمارا کیمرہ آپ کا تعاقب نہیں کر سکتا۔فلم کے ڈائریکٹر امیاچکربورتی تھے جبکہ فلم کے دوسرے لیڈ اداکار آغا تھے۔دلیپ کو بھاگ کر سین کرانے کے لئے کئی ریہرسلز کرنا پڑیں۔ یاد رہے کہ یہ فلم مکمل ہونے میں تقریباً دوسال کا عرصہ لگا اور آخرکار یہ 29 نومبر 1944ءکو ریلیز ہوئی۔فلم باکس آفس پر زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی کیونکہ فلم کی کہانی روایتی تھی کہ ایک لڑکی دو افراد کے درمیان سینڈوچ بنی ہوتی ہے۔انڈیا کے ایک فلمی رسالے کے مطابق اس فلم میں کوئی خاص بات نہیں تھی اور دلیپ کمار کو تو خصوصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہاں تک کہہ دیاگیاتھا”اس شخص میں تو خون کی کمی لگتی ہے اور اس کا فلمی دُنیا میں آنا ایک ہڈیوں کے ڈھانچے کا اضافہ ہے۔“اس فلمی جریدے نے تو یہاں تک بھی لکھ دیاتھا:”دلیپ کو بہت سے وٹامن کھلائے جائیں اور دیر تک چکنی اشیاءکے ذریعے اس کا علاج کیا جائے تب جا کر کوئی دوسری فلم میں اسے سائن کیا جانے کا خطرہ مول لیا جائے۔وہ تو ایسے دکھائی دیتا ہے جیسے کافی دیر بیمار رہنے کے بعد جیل سے بھاگا ہوا قیدی۔“جریدہ مزید لکھتا ہے کہ ” جوار بھاٹا“میں دلیپ کمار کی اداکاری نہ ہونے کے برابر تھی،وہ جب بھی سکرین پر نمودار ہوئے،فلم بینوں نے یا ان کا تمسخر اُڑایا یا پھر وہ بہت مایوس ہوئے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

٭”میلہ“ اور”دیدار“ جیسی فلمیں کرکے انہوں نے ٹریجڈی کِنگ کا خطاب حاصل کیا

دلیپ کمار ایک کے بعد دوسری ٹریجک فلم سائن کرتے گئے اور یوں ”میلہ“ اور”دیدار“ جیسی فلموں میں کام کرکے انہوں نے اپنے لئے ٹریجڈی کِنگ کا خطاب حاصل کرلیا۔اس طرح 1953 میں بنی”آن “جس میں وہ تلوار تھامے ایک باغی کے روپ میں نظر آئے۔ 1954ءمیں بننے والی فلم”امر“میں منفی کردار کیا جس میں ہیرو ایک پہاڑی لڑکی کی عزت سے کھیلتا ہے،اس کے بعد1964ءمیں ریلیز ہوئی فلم”لیڈر“جس میں انہوں نے اپنی کامیڈی کے جوہر دکھائے۔ 1952 میں اپنے ایک انٹرویو میں ٹریجڈی کِنگ کے ٹائٹل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:”مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ میرا ہر پروڈیوسر مجھے اپنی فلم میں مرتا ہوا کیوں دکھانا چاہتا ہے۔کیوں میرا ہر ڈائریکٹر میری آنکھوں میں آنسو دیکھنا چاہتا ہے اورکیوں میری ہر ہیروئین سکرین پر مجھ سے بے وفائی کرکے مجھے تنہاچھوڑ جاتی ہے اورکیونکہ فلم بین یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں اپنے چہرے پر دُکھی جذبات اور اداسی طاری رکھوں۔یہ صورتحال یکسوئی اورمیری پریشانی کا باعث ہے۔“

٭دائمی کنوارے کی شُہرت رکھنے والے دلیپ نے 1966ءمیں سائرہ بانوسے شادی کرکے دُنیاکوحیرت زدہ کردیا

دائمی کنوارے کی شُہرت رکھنے والے اس شخص نے جو ہر وقت دُکھی ہونے کی صورت بنائے رکھتا تھا1966ءمیں ملکہ حُسن سائرہ بانو سے شادی کرکے دُنیا کو حیرت زدہ کردیا۔راجندر کمار کے ساتھ سائرہ بانوکے جو قصّے زبان زدعام ہوئے ان کا منہ بند کرنے کے لئے سائرہ کی والدہ پری چہرہ نسیم نے سرعت کے ساتھ سائرہ اوردلیپ کی شادی کا اہتمام کیا۔یاد رہے کہ راجندر کمار پہلے سے ہی شادی شدہ تھے۔

٭”جگنو“کے بعد1948ءمیں ریلیز ہونےوالی”شہید“نے انہیں سٹاربنادیا

نورجہاں کے ساتھ ان کی فلم جگنو نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔ اس فلم کا گانا ”آواز دے کہاںدُنیا میری جواں ہے“ 6 دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی سدابہار ہے اور 1980ءکی دہائی میں جب نور جہاں بھارت گئیں اور ایک تقریب میں دلیپ کمار سے ان کی ملاقات ہوئی تو ملکہ ترنّم نے یہی گانا گایا تھا جس سے تقریب کافی جذباتی ہو گئی اور دلیپ کمارنے اس موقع پر کہا تھاکہ میرے لئے تو وقت وہیں کھڑا ہے جہاں نورجہاں جی ہمیں چھوڑ کر گئی تھیں،اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔جگنوکی ریلیز سے پہلے دلیپ کی دو فلمیں پراتما 1945ءاورناکا دوبی1947ءمکمل طور پر ناکام ہو چکی تھیں اوراسی لئے ان فلموں کا عام طور پر ذکر بھی نہیں ہوتا۔جگنوکے بعد 1948ءمیں بننے والی فلم شہیدنے تو دلیپ کو سٹار بنا دیا۔اس کے بعد 1948ءمیں ریلیز ہونے والی فلم گھر کی عزت بھی ناکام ہوئی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب دلیپ اور کامنی کوشل کے رومانس کے تذکرے عام ہوئے اور دونوں کی آن سکرین کیمسٹری نے فلم بینوںکے دل چھو لئے۔شہیدکے بعد بنی ندیا کے پار1948ءمیں،شبنم1949ءاورآرزو 1950ءمیں ریلیز ہوئیں۔یاد رہے کہ کامنی کوشل دلیپ کمار کے ساتھ فلم شہیدمیں کام کرنے سے قبل ہی ایک بڑی سٹار بن چکی تھی اور اس کی چار فلمیں باکس آفس پرکامیابی کے جھنڈے گاڑچکی تھیں۔

جاری۔۔۔۔ 

مزیدخبریں