ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان کی شام کے نئے حکمران ابو محمد الجولانی سے ملاقات

Syria, City42, Turkey, Kurdistan, kurd nationalists, north eastern Syria, Syrian Kurds
کیپشن:  دمشق پر ہئیت تحریر کے قبضہ کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ  حقان فیدان غالباً کسی بیرونی ریاست کے سب سے بڑے عہدیدار ہیں جنہوں نے دمشق جا کر ابو محمد الجولانی کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں دونوں تپاک کے ساتھ ملے اور خوب قربت کا اظہار کیا تاہم فوٹو سیشن کے دوران دونوں کی باڈی لینگویج حفظِ مراتب کی نشاندہی کر رہی تھی۔ (یہ سکرین شوٹ ترکیہ کی وزرارتِ خارجہ کی ویڈیو کلپ سے لیا گیا)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  ترکی کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے شام فتح ہونے کے بعد پہلی مرتبہ دمشق جا کر  ہئیت تحریر الشام کے لیڈر ابو محمد الجولانی سے ملاقات کی ہے۔

الجولانی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ترکی کی حکومت کی مدد سے دمشق پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آٹھ دسمبر کو الجولانی کی قیادت میں 38 گروہوں پر مشتمل باغیوں کے اتحاد کے دمشق پر قبضہ کے بعد یہ ترکی کا الجولانی کے ساتھ پہلا  باضابطہ اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔ اس سے پہلے ترکیہ کی انٹیلی جنس کے سربراہ ابراہیم قالن نے 12 دسمبر کو دمشق کا دورہ کیا تھا جس کی تشہیر نہیں ہوئی تھی۔

انقرہ میں ترکی کی وزارت خارجہ  نے ایک  ویڈیو  کلپ ریلیز کی ہے جس میں حقان فیدان کو ابو محمد الجولانی کے ساتھ گلے ملتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کلپ میں رسمی فوٹو سیشن کے دوران ترک وزیر خارجہ اور شام کے نئے حکمران تصور کئے جانے والے ابو محمد الجولانی کی باڈی لینگویج دلچسپ ہے۔

Caption

دمشق پر قبضہ کے بعد تین اہم ڈیویلپمنٹس

دمشق پر ہئیت التحریر کے قبضہ کے بعد جو دلچسپ سٹریٹیجک ڈیویلپمنٹس ہوئیں ان میں اسرائیل کی ائیرفورس نے شام کی قومی فوج کے درجنوں بیسز پر سینکٹروں ائیر سٹڑائیکس کر کے بڑے پیمانہ پر تباہی کی، امریکہ کی سینٹ کوم نے داعش کے کچھ مقبوضہ علاقوں پر درجنوں حملے کئے اور داعش کی باقی ماندہ قیادت میں سے ایک اہم کماندر ابو یوسف کو مار دیا جب کہ شمال مشرقی شام میں ترکی کے دوست  شامی جنگجو   گروہوں اور کرد قوم پرست ملیشیا کے درمیان لڑائی ہنوز جاری ہے۔

شامی کردوں کے خلاف الجولانی سے  ترکیہ کی توقعات

ترک وزیر خارجہ کے دمشق جا کر ابو محمد الجولانی کے ساتھ رسمی ملاقات کرنے سے پہلے  ترکی کے  وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ترکیہ کو یقین ہے کہ شام کی نئی قیادت جس میں ترکی کے دوست جنگجو  بھی شامل ہیں، وہ  کرد قوم پرست جنگجوؤں کو شمال مشرقی شام کے ان تمام علاقوں سے نکال دیں گے  جن پر انہوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔

کردستان کا مسئلہ

کرد قوم صدیوں سے ترکی، شام، عراق اور ایران کی ریاستوں میں تقسیم لیکن باہم متصل  علاقہ میں رہ رہے ہیں اور کزشتہ  پون صدی سے آزاد کردستان کے قیام کے لئے تقریباً مسلسل جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

شام میں آباد  کرد   شام کی سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔ ان کی صحیح آبادی اب تک معلوم نہین تاہم کہا جاتا ہے کہ کرد   شام کی موجودہ  آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں۔ ] شام کے شمال مشرقی حصہ میں اور دیگر علاقوں میں آباد   کردوں کے ترکی، عراق  اور ایران مین آباد کردوں کے ساتھ قریبی نسلی رشتے ہیں تاہم شامی اور ترک ریاستوں مین آباد کردوں کے باہمی تعلقات نسبتاً زیادہ قریبی رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شام مین موجود کردوں کی بڑی تعداد  20ویں صدی کے دوران ترکی میں سخت نوعیت کی فوجی کارروائیوں سے بچنے کے لئے سرحد پار کر کے شام میں شامل کرد علاقوں میں آتے رہے ہیں۔ 

 شام میں کرد آبادی کے تین بڑے مراکز میں  جزیرہ کا شمالی حصہ، کوبانی کے ارد گرد وسطی فرات کا علاقہ اور مغرب میں عفرین کے ارد گرد کا علاقہ شامل ہیں۔  یہ سب علاقے  شام اور ترکی کی سرحد پر ہیں۔ حلب اور دمشق کے مزید جنوب میں بھی کافی کرد وں کی کئی آبادیاں ہیں۔

شام میں آباد بہت سے کرد سیاسی خود مختاری چاہتے ہیں۔  وہ  اپنے علاقہ کو مغربی کردستان سمجھتے ہیں۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تیرہ سال سے چل رہی بغاوت کا ایک اہم عنصر وہی کرد رہے ہیں جنہیں آزاد کردستان سے دلچسپی رہی ہے۔ وہ  عراق میں کردستان کی علاقائی حکومت کی طرح، یا کردستان کی آزاد ریاست کا حصہ بننے کا عزم لے کر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑتے رہے اور حالیہ سالوں کے دوران انہوں نے خانہ جنگی کے تناظر میں، کردوں نے  شمالی اور مشرقی شام کی خود مختار انتظامیہ قائم کر لی ہے۔ اسی علاقہ میں اب ترکی کے دوست گروپ کردقوم پرستوں کے ساتھ  لڑ رہے ہیں۔