ملکی حالات پر پریشان عوام ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ آگے کیا ہوگا؟ اس وقت یہی دشمن کا ہتھیار اور ہماری کمزوری ہے، پاکستان میں بےیقینی کی صورتحال کو برقرار رکھنا اور بڑھاوا دینا سب سے بڑی صنعت بن چکا ہے جس میں باقاعدہ سرمایہ کاری کی جارہی ہے، اس خطرناک کھیل میں مخصوص مفادات رکھنے والی مختلف لابیاں ملوث ہیں۔
یقینی طور پر اس قسم کا منفی تاثر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی دیا جا رہا ہے لیکن نوٹ کی جانے والی اصل بات یہ ہے کہ آخر ان سب کے پیچھے کون ہے؟ تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بعض اندورنی اور بیرونی حلقے پاکستان میں استحکام نہیں چاہتے، وہ چاہتے کہ حالات خراب ہونے کا تاثر زیادہ سے زیادہ پھیلا کر وہ اپنا ایجنڈا پورا کرتے رہیں کیونکہ اگر حالات نارمل ہوتے نظر آئے تو نہ صرف لوگوں میں بے چینی کم ہوگی بلکہ ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے میرے ایک عزیز امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے اور واپڈا میں بڑے عہدے پر فائز ہوگئے، ان دنوں بھی واپڈا میں بہت شور تھا کہ بجلی چوری کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ 98-1997 کے دوران اس وقت کی سول حکومت نے اس مقصد کیلئے فوجی اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔
چند روز تک خبریں آتی رہیں کہ حکومتی جماعت سمیت کچھ بڑی سیاسی شخصیات کیخلاف بجلی چوری پکڑے جانے پر کارروائیاں کی جارہی ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں بجلی چوری کرنے والے عام صارفین کے گھروں، دفاتر اور کاروباری مراکز پر چھاپوں کی اطلاعات بھی آتی رہیں لیکن حکومت خود چلی گئی اور بجلی چوری نہ رک سکی۔
ایک روز اپنے عزیز واپڈا کے اسی افسر سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ خود بہت پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار اور دلیر بھی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ادارے میں بدعنوانیوں میں کمی آرہی ہے اور نہ بجلی چوری رک رہی ہے، اس افسر نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ بات صرف اتنی ہے کہ ادارے کے اندر کے لوگ ہی نہیں چاہتے کہ شفافیت آئے اور سسٹم منظم انداز میں آگے بڑھے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ ایسا ہوگیا تونہ صرف کرپشن کے راستے بند ہو جائیں گے بلکہ سب کی پیشہ ورانہ اہلیت بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔
انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ رجحان پچھلے کئی سالوں سے ملک کے حوالے سے بھی زور پکڑتا جارہا ہے، ایک عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی پالیسی رہی ہے کہ معاملات کو جان بوجھ کر الجھایا جائے تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل کی طرف مرکوز ہی نہ ہوسکے، معاشرے کے دوسرے طاقتور طبقات نے بھی اسی کی پیروی کرنا شروع کردی ہے، پورا ملک ایک عرصے سے کاروباری مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھنے والے کارٹلز کے شکنجے میں ہے۔
سرمائے کی بنیاد پر حکومتیں گرانے اور بنانے میں کلیدی اہمیت اختیار کر جانے والے ان کارٹلز کو قابو کرنا بھی اس لیے مشکل ہوگیا ہے کہ یہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی مرحلے پر غیریقینی صورتحال پیدا کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
یہ بات تو سب کے سامنے ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد غیریقینی کی فضا پیدا کرنے اور بڑھاوا دینے میں اسٹیبلشمنٹ کے ہی کچھ حلقوں کا ہاتھ تھا۔ اس دوران چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ہم خیال ججوں نے جو کچھ کیا وہ صرف حکومت کیلئے نہیں بلکہ ریاست کیلئے شدید اضطراب کا سبب بنا۔
ویسے تو سندھ ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے معاملات بھی زیادہ بہتر نہیں رہے مگر لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹس کے بعض ججوں نے تو حد ہی کردی، عدلیہ کی جانب سے اس قسم کے اقدامات 9 مئی کے بعد بھی جاری رہے، اسی عرصے کے دوران بعض بڑی کاروباری شخصیات نے اپنا لچ تلتے ہوئے پی ٹی آئی کی معافی تلافی کیلئے عملی کوششیں کیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ان کاروباری گروپوں کو مکمل طور پر فری ہینڈ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کورونا کی وباء کے دوران آنے والی تین ارب ڈالر کی امداد بھی بلاسود قرضوں کی شکل میں تقسیم کردی گئی، مزید ظلم یہ کہ قرضے واپس بھی نہیں کیے جارہے، اس سے بھی بڑی زیادتی یہ کہ قومی اسمبلی اپنی مدت ختم کرکے تحلیل ہوگئی مگر نور عالم خان جیسے دبنگ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور کئی دوسرے ارکان کے مطالبے اور اصرار کے باوجود امداد کی رقم سے قرضے کیلئے ہضم کر جانے والوں کی فہرست خود حکومتی اداروں نے فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
بہرحال ان سیٹھوں نے ایک بار پھر سے ایسے ہی لوشے لینے کیلئے ایک حد سے زیادہ کوششیں کیں تو اسٹیبلشمنٹ نے سخت قسم کی شٹ اپ کال دے کر مکو ٹھپ دیا۔ اس دوران جوڈیشل ایکٹوازم کے نام پر ہم خیال ججوں نے حکومت کو گرانے کیلئے جو کوششیں کیں وہ ناکامی سے دوچار ہوگئیں۔ قومی اسمبلی کی موجودگی تک یہ طے کرلیا گیا تھا کہ خصوصاً ہم خیال جج جو پہلے آئین ری رائٹ کرکے ایک بہت بڑے تنازعے کا حصہ بن چکے ہیں اپنی کارروائیوں سے باز نہ آئے تو چیف جسٹس سمیت ان سب کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں طلب کیا جائے گا۔
یہ وارننگ کارگر ثابت ہوئی اور ہم خیال جج ٹھنڈے ہوکر بیٹھے گئے لیکن وہ مناسب موقع کی تاک میں تھے جیسے ہی قومی اسمبلی تحلیل ہوئی ’مشہور زمانہ‘ تین رکنی بنچ نے فوراً عدالت لگا کر پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا ریویو اینڈ ایکٹ اڑا دیا، اس سے پہلے چیف جسٹس بندیال کے حوالے سے ایسی اطلاعات سامنے آچکی تھیں کہ وہ جاتے جاتے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو ’سرپرائز‘ دیں گے۔
نگران حکومت آتے ہی مخصوص ججوں سمیت وہ تمام حلقے پھر سے سرگرم ہوگئے ہیں جن پر پی ڈی ایم اور اتحادی حکومت کے دور میں بڑی حد تک پالیا گیا تھا، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط خبریں پھیلا کر معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں پھر سے تیز کردی گئی ہیں، اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان عناصر کے نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی سہولت کار اب بھی متحرک ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ نگران سیٹ ماضی کی طرح کا روائتی اور چپ چاپ ایک طرف بیٹھ پر دہی کھانے والا نہیں ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت میں ہر پارٹی کے اپنے اپنے عزائم اور ترجیحات تھیں یقیناً مصلحتیں اور خدشات بھی ہوں گے، اسی لیے ہم خیال ججوں سے لے کر پی ٹی آئی کی قیادت تک ہر کسی کے بارے میں ایک حد سے زیادہ آگے جانے سے گریز کی پالیسی اختیار کی گئی جو بظاہر کارآمد بھی ثابت ہوئی لیکن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت کی ایسی کوئی مجبوری نہیں۔
سانحہ 9 مئی، اس سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کے ذمہ داروں کو قابو کرکے انجام تک پہنچانا نگران حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہوگا۔ ملک میں عدم استحکام اور غیریقینی کی صورتحال پیدا کرنے والوں کو اگر اندازہ نہیں تو بہت جلد لگ پتہ جائے گا۔
یہ ’آپریشن‘ کرنا لازم ہوچکا ورنہ کوئی بھی حکومت چل نہیں پائے گی۔ قوی امکان یہی ہے کہ نگران حکومت کے ارکان کا چنائو کرنے سے پہلے ہی اس حوالے سے ٹھوس حکمت عملی اور مکمل منصوبہ بندی کرلی گئی ہوگی۔ عدم استحکام اور غیریقینی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے تمام عناصر خواہ کسی بھی ادارے یا شعبے میں بیٹھے ہوں ان کے داؤ پیچوں کو بجھتی ہوئی شمع کی آخری پھڑ پھڑاہٹ تصور کیا جانا چاہیئے۔