ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ملکہ ترنم نور جہاں کی 95 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

Singer Noor Jehan
کیپشن: Noor Jehan
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک : ملکہ ترنم نورجہاں کی 95ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔ دنیا بھر  سے پرستاروں نے خراج عقیدت پیش کیا۔

ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو ضلع قصور کے علاقے کوٹ مراد خاں میں پیدا ہوئی تھیں۔ان کا اصل نام اللہ وسائی تھا انہیں محض چار سال  کی عمر میں موسیقی کی تعلیم کے لیے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا گیا۔سات برس کی عمر میں  اپنی تربیت کی بدولت وہ اپنی بڑی بہن عیدن بائی اور کزن حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر  پرفارم کرنے لگی تھیں۔ یہ ساری منڈلی مختار بیگم، اختری بائی فیض آبادی اور دوسری معروف گلوکاروں کے مقبول عام  گیتوں کو دوبارہ پرفارم کرتی تھیں۔نو برس کی عمر میں خاندان سمیت لاہور منتقل ہو گئیں۔ یہیں ان کا سامنا موسیقار جی اے چشتی  سے ہوا انہوں نے جوہر قابل کو پہچان کر انہیں چند طبع زاد گیتوں کی دھن بنا کر دی۔

کلکتہ جو اس وقت فلم اور شوبز کا مرکز تھا یہاں پہنچنے کے بعد  گلوکارہ مختاربیگم  کی سفارش پر انھیں کے ڈی مہرا کی فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اس کمپنی نے اس زمانے کے رواج کے مطابق   اللہ وسائی کا نام   'بے بی نور جہاں' رکھا۔ تینوں بہنوں نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی' تھا۔ اس فلم میں مرکزی کردار پشپا رانی اور استاد مبارک علی خان نے ادا کیے تھے۔ 

اس فلم میں نور جہاں نے ایک گانے 'لنگھ آجا پتن چنہاں دا او یار، لنگھ آ جا' پر پرفارم کیا جسے پسند کیا گیا اور اگلے تین چار سال تک انھیں فلموں میں ثانوی کردار ملتے رہے۔ چند فلموں میں انھیں گانے کا موقع بھی ملا جن میں 'مصر کا ستارہ'، 'مسٹر اینڈ مسز بمبئی'، 'ناری راج'، 'ہیر سیال' اور 'سسی پنوں' کے نام شامل تھے۔

مگر جس فلم سے نور جہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم 'گل بکاؤلی' تھی۔ اس کے بعد 'یملا جٹ' اور 'چودھری'  نام کی فلموں میں بھی ان کے گیت شامل تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے 'گل بکاؤلی' کے کامیاب تجربے کو  مد نظر رکھتے ہوئے 'خاندان' کے زیادہ تر گانوں کو نورجہاں کی آواز سے آراستہ کیا۔نورجہاں کی پہلی شادی شوکت حسین رضوی سے سنہ 1944 میں ہوئی جب وہ ’بے بی نورجہاں‘ سے ’نورجہاں‘ ہوئیں۔

نورجہاں اور شوکت حسین رضوی کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے جن میں اکبر رضوی (اکو میاں)، ظل ہما اور اصغر رضوی (اچھو میاں) شامل ہیں۔ شوکت حسین رضوی ناصرف نور جہاں کے شوہر رہے بلکہ گرو بھی تھے۔
نورجہاں کی دوسری شادی اعجاز درانی سے سنہ 1959 میں ہوئی جب وہ ’سُپرسٹار‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’ملکہ ترنم‘ کا لقب پا چکی تھیں۔ اعجاز درانی بھی ان کی زندگی میں لگ بھگ 12 سال تک رہے اور اس عرصے کے دوران ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں حنا، شازیہ اور ٹینا شامل ہیں۔ نورجہاں نے 995 فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے۔ بطور گلوکارہ ان کی آخری فلم 'گبھرو پنجاب دا' تھی جو 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔نورجہاں کے کریڈٹ پر لاتعداد غزلوں کے علاوہ 27 ملی نغمے بھی موجود ہیں۔

حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور وہ کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔