ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی کیس نظر ثانی درخواست  خارج کر دی

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی کیس نظر ثانی درخواست  خارج کر دی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی  کی  اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کے متعلق الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر  نظرثانی کی درخواست خارج کر دی۔


پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی کی درخواست کی پیر کے روز سماعت  چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے نظرثانی درخواست کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی اور کہا کہ یہ کیس لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھیجا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ نظرثانی کا معاملہ ہے، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، نظرثانی درخواست میں عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے ہوتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کنے حامد خان سے استفسار کیا،  آپ نے اس پوائنٹ کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا، آپ کیس کو چلا ئیں۔

حامد خان نے کہا، عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھ لے۔

 چیف جسٹس نے کہا وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں،انٹرا پارٹی انتخابات اور معاملہ ہے، وہ الگ معاملہ ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا، سنی اتحاد کونسل کیس میں 13 رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا، مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواست  زیر التوا ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے جس پر نظرثانی زیر التوا ہے، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ نے اپنی بات تو کرنی ہی کرنی ہے، جو کہنا ہے منہ پر کہنا چاہیے، ٹیلی ویژن پر بیٹھ  کرنہیں کہنا چاہیے، ہمارے منہ پر جو  چاہےکہیں، ، پیٹھ پیچھے نہیں، آپ نے دلائل کیوں نہیں دینے، جواب دیں۔ 

 حامد خان نے کہا کہ مجھے دلائل نہیں دینے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے،  جب نیازی صاحب وزیراعظم تھے تو انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے(الیکشن کمیشن کی جانب سے) نوٹس جاری ہوا، تب بھی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا، ایسا تو نہیں کہ آپ لوگ انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کیلئے دلچسپی ہی نہیں رکھتے اور عوام سے ہمدردی لینا چاہتے ہیں، انتخابات کرانے کیلئے تو دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔

ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جس پر حامد خان بولے میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا۔

چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا،  منہ پر بات کرنے والےکو میں پسند کرتا ہوں۔

حامد خان نے کہا،  میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو، جس پر چیف جسٹس پاکستا نے کہا میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی بولیں ایک جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں کیوں تاخیر کررہی ہے؟ انٹرا پارٹی انتخابات کروانا تو ایک ہفتےکا کام ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں گوہر علی خان، نیاز اللہ نیازی، علی ظفر بھی تھے، ان میں سےکوئی دلائل دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے، حامد خان بولے میں موجودہ بینچ کے سامنے دلائل دینا ہی نہیں چاہتا، کیس کیلئے نیا بینچ بنے گا تو دلائل دوں گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چلیں پھر گپ شپ کر لیتے ہیں، آپ کو سننے میں مزہ آتا ہے۔

حامدخان نے کہا متعصب ہونے کی درخواست تو دی جا سکتی ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا متعصب کیوں؟ جو آئین پر بات کرے متعصب ہو گا؟ جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے کہا، آپ باہر جا کر تقریر کریں۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 13 جنوری کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظرثانی درخواست خارج کر دی اور کہا کہ فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاسکی۔

فیصلہ میں کسی غیر قانونی نکتے کی نشاندہی نہیں کی گئی، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے  کہ گزشتہ فیصلے میں کسی غیر قانونی نکتے کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف کے وکلا نے کیس کے میرٹس پر دلائل ہی نہیں دیئے۔

یا تو اپنا آئین بدل دیں، یا اپنے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں

حامد خان  نے کہا کہ کہاجا رہا ہےکہ ہم نے انٹراپارٹی انتخابات کرایا ہی نہیں، ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کرایا ہے، جناب نے اسے کالعدم قرار دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا،  آپ کی جماعت کا انتخابات کا آئین بہت شفاف ہے، یا تو آپ ایسے آئین کو بدل دیں یا اس کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے روسٹرم پر آکر 26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بینچ اب یہ کیس سن ہی نہیں سکتا، نہ ہم اس کے سامنے دلائل دیں گے۔

 چیف جسٹس نے کہا ہمیں کسی ترمیم کا نہیں معلوم، ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے، ہمیں نہ بتائیں ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔

بعد میں معزز بنچ نے پی ٹی آئی کی نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی۔