بلاول بھٹو کی پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات میں ججوں کی مداخلتوں پر شدید تنقید

عدلیہ وزیر خارجہ طے کرسکتی ہے، ڈیم بنا سکتی ہے،  پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی ؟،  یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کا کیا کام ہے، کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے ، افتخار چودھری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم باہر پھنک دوں گا، مولانا فضل الرحمان کا جو کردار اس عمل میں رہا ہے یہ تاریخ یاد رکھے گی، قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین کا دھواں دارخطاب

21 Oct, 2024 | 12:39 AM

سٹی 42 : چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا جو کردار اس عمل میں رہا ہے یہ تاریخ یاد رکھے گی، جتنی ہم نے پارلیمان کی عزت رکھی ہے اس میں بھی سب سے بڑا کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتےہوئے کہا کہ وزیر قانون کے جو الفاظ ہیں ان نا شکر گزار ہوں ، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے، جتنا ہمارا آپس میں تبادلہ خیال ہوا اس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست میں اپنے والد صدر آصف زرداری کے بعد اگر کسی کو بڑا مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمان کی ہے ۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا آئین ہے پاکستان کا دستور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کےلیے آج جتنا اسپیس ہے اتناماضی میں نہیں رہا،  جتنا اتفاق رائے پیدا ہوسکتا تھا اُاتنا حاصل کیا ہے۔ 1973 کے آئین کے وقت جے یو آئی اور پیپلز پارٹی ان بینچوں پر بیٹھی تھی، جب پاکستان کی بات آتی تھی تو سارے اختلاف بھول کر ایک میز پر بیٹھ کر آئین دلوایا تھا، ہمارے آئین میں تمام کالے قوانین کو ہم نے اپنے آئین سے نکلوا دیا، انہوں نے کہا کہ سیاست دان کا امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ جتنا اسپیس ملتا ہے اس اسپیس پر کتنا کھیل سکتے ہو  ۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے وقت اس دور کے حالات کے مطابق کام کیا، آج کے دور کا اپنا سیاسی اسپیس ہے، جتنا اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا وہ ہم نے حاصل کرکے 26 ویں ترمیم کی شکل میں پاس کرنے جارہے ہیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ پاکستان کیے نظام عدل سے مطمئن ہیں یا نہیں، پاکستان کے عوام کیا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے عدالت کا نظام چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چلے؟ ۔  انہوں نے کہا کہ ہماری عدالت کام تھا جمہوریت کا تحفظ آئین کا تحفظ کرنا، ہماری عدالت کا کام تھا آمر کو روکنا، کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اپوزیشن کے دوست کالا سانپ کالا سانپ کی بات کر رہے ہیں، ان کی نظر میں اس آئینی ترمیم میں کوئی ایسی شق تھی جسے نکالا گیا، کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے ۔  جنرل مشرف نے وردی میں الیکشن لڑا تو اجازات عدالت نے دی ، ججز آئین اور جمہوریت کو تحفظ دینے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے۔ ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلہہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا ۔ 

مزیدخبریں