ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بلاول بھٹو کی پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات میں ججوں کی مداخلتوں پر شدید تنقید

عدلیہ وزیر خارجہ طے کرسکتی ہے، ڈیم بنا سکتی ہے،  پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی ؟،  یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کا کیا کام ہے، کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے ، افتخار چودھری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم باہر پھنک دوں گا، مولانا فضل الرحمان کا جو کردار اس عمل میں رہا ہے یہ تاریخ یاد رکھے گی، قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین کا دھواں دارخطاب

بلاول بھٹو کی پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات میں ججوں کی مداخلتوں پر شدید تنقید
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 : چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا جو کردار اس عمل میں رہا ہے یہ تاریخ یاد رکھے گی، جتنی ہم نے پارلیمان کی عزت رکھی ہے اس میں بھی سب سے بڑا کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتےہوئے کہا کہ وزیر قانون کے جو الفاظ ہیں ان نا شکر گزار ہوں ، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے، جتنا ہمارا آپس میں تبادلہ خیال ہوا اس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست میں اپنے والد صدر آصف زرداری کے بعد اگر کسی کو بڑا مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمان کی ہے ۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا آئین ہے پاکستان کا دستور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کےلیے آج جتنا اسپیس ہے اتناماضی میں نہیں رہا،  جتنا اتفاق رائے پیدا ہوسکتا تھا اُاتنا حاصل کیا ہے۔ 1973 کے آئین کے وقت جے یو آئی اور پیپلز پارٹی ان بینچوں پر بیٹھی تھی، جب پاکستان کی بات آتی تھی تو سارے اختلاف بھول کر ایک میز پر بیٹھ کر آئین دلوایا تھا، ہمارے آئین میں تمام کالے قوانین کو ہم نے اپنے آئین سے نکلوا دیا، انہوں نے کہا کہ سیاست دان کا امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ جتنا اسپیس ملتا ہے اس اسپیس پر کتنا کھیل سکتے ہو  ۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے وقت اس دور کے حالات کے مطابق کام کیا، آج کے دور کا اپنا سیاسی اسپیس ہے، جتنا اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا وہ ہم نے حاصل کرکے 26 ویں ترمیم کی شکل میں پاس کرنے جارہے ہیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ پاکستان کیے نظام عدل سے مطمئن ہیں یا نہیں، پاکستان کے عوام کیا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے عدالت کا نظام چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چلے؟ ۔  انہوں نے کہا کہ ہماری عدالت کام تھا جمہوریت کا تحفظ آئین کا تحفظ کرنا، ہماری عدالت کا کام تھا آمر کو روکنا، کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اپوزیشن کے دوست کالا سانپ کالا سانپ کی بات کر رہے ہیں، ان کی نظر میں اس آئینی ترمیم میں کوئی ایسی شق تھی جسے نکالا گیا، کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے ۔  جنرل مشرف نے وردی میں الیکشن لڑا تو اجازات عدالت نے دی ، ججز آئین اور جمہوریت کو تحفظ دینے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے۔ ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلہہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا ۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ چیف جسٹس کی عدالت نے جو انصاف دلوایا وہ جسٹس دراب پٹیل نے اپنے آرڈر میں لکھا تھا، جسٹس دراب پٹیل کو چیف جسٹس بننا تھا اس کے درمیان پی سی او جج تھے، جسٹس دراب پٹیل  کے لیے کرسی کی اہمیت ہوتی تو پی سی او جج بنتے، جسٹس دراب پٹیل  نے چیف جسٹس کی کرسی کو لات مار کر استعفی دے دیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں آئینی عدالت بنانے کا وعدہ کیا، 2024 میں بھی آئینی عدالت میرے منشور کا حصہ ہے ۔ سیاست میں ضد نہیں ہوتی، اگر ہم اپنی ضد پر قائم رہیں تو کامیابی مشکل ہوگی۔ 

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے چمپئن افتخار چودھری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم باہر پھنک دوں گا۔  افتخار چودھری کی دھمکی میں آکر 18 ویں ترمیم کی گئی،  یہ عدالت کالا سانپ بن کر 18 ویں ترمیم کے گرد گھوم رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئینی بینچ بنانے جارہے ہیں، جب سینیٹ بنائی تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پارلیمان پر پارلیمان بنا رہے ہو ، یہ سمجھتے ہیں یہ پاور ہم ان سے چھین رہے ہیں، یہ پاور انہوں نے ہم سے چھینا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت ہو یا آئینی بنچ عوام کا کام ہونے جارہا ہے،  وفاقی عدالت کو تمام صوبوں میں برابر کی نمائندگی دے رہے ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جج جج کو لگائے ، اور جج جج کو ہٹائے،  کہتے ہیں سیاست دان کون ہوتا ہے ، ہم منتخب نمائندے ہیں۔ جج لگانے کا اختیار وزیراعظم سے چھین کر چیف جسٹس کو دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خوف تھا خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو جج تعینات کرے گی تو نظام تباہ ہوجائے گا۔ جب ایک امر ججز تعینات کررہا تھا تو کیا اس کا راستہ کسی نے روکا ؟،  ہم نے ججز کو عادت لگائی تھی کہ چیف تیرے جان نثار بے شمار بے شمار ۔  پاکستان کے عدالتی نظام کا دنیا میں مذاق بن گیا ہے۔  عدلیہ وزیر خارجہ طے کرسکتی ہے، ڈیم بنا سکتی ہے،  پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی ؟،  یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کا کیا کام ہے۔  کسی نہ کسی وقت ہم نے یہ دروازہ بند کرنا تھا ، ہم یہ دروازہ بند کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو تعدا ہے کیسز کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس سے زیادہ تعداد ہے ہائی کورٹس میں۔ چئیرمین پی پی نے کہا کہ اس آئینی ترمیم میں کچھ ایسی چقیں ہیں جو 100 فیصد اتفاق رائے سے پاس ہوئے ہیں، آئینی ترمیم ہونے جا رہے ہیں اور اس میں ایک انقلابی کام ہونے جا رہا ہے، آئینی اصلاحات میں جے یو آئی نے جو تجویز دی اس کو ویلکم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اس سارے عمل میں جو محنت سیاسی جماعتوں نے کی ان کا شکر گزار ہوں ، مولانا فضل الرحمان کا شنر گزار ہوں ، نواز شریف کا شکر گزار ہوں ، دل سے کہہ رہا ہوں پاکستان تحریک انصاف کا شکر گزار ہوں ، ہم آپ کی سیاسی مشکلات کا احساس کرتے ہیں ، جتنا آپ کے پاس اسپیس تھا اتنا آپ حصہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی جماعت کے بغیر تو یہ کام ہو ہی نہیں سکتا تھا، تاریخی کام میں آپ کا کردار ہے۔ اس سیاسی صورتحال میں یہ سیاسی کارنامہ ہے ۔