سٹی 42 : چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا جو کردار اس عمل میں رہا ہے یہ تاریخ یاد رکھے گی، جتنی ہم نے پارلیمان کی عزت رکھی ہے اس میں بھی سب سے بڑا کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتےہوئے کہا کہ وزیر قانون کے جو الفاظ ہیں ان نا شکر گزار ہوں ، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے، جتنا ہمارا آپس میں تبادلہ خیال ہوا اس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست میں اپنے والد صدر آصف زرداری کے بعد اگر کسی کو بڑا مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمان کی ہے ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا آئین ہے پاکستان کا دستور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کےلیے آج جتنا اسپیس ہے اتناماضی میں نہیں رہا، جتنا اتفاق رائے پیدا ہوسکتا تھا اُاتنا حاصل کیا ہے۔ 1973 کے آئین کے وقت جے یو آئی اور پیپلز پارٹی ان بینچوں پر بیٹھی تھی، جب پاکستان کی بات آتی تھی تو سارے اختلاف بھول کر ایک میز پر بیٹھ کر آئین دلوایا تھا، ہمارے آئین میں تمام کالے قوانین کو ہم نے اپنے آئین سے نکلوا دیا، انہوں نے کہا کہ سیاست دان کا امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ جتنا اسپیس ملتا ہے اس اسپیس پر کتنا کھیل سکتے ہو ۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے وقت اس دور کے حالات کے مطابق کام کیا، آج کے دور کا اپنا سیاسی اسپیس ہے، جتنا اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا وہ ہم نے حاصل کرکے 26 ویں ترمیم کی شکل میں پاس کرنے جارہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ پاکستان کیے نظام عدل سے مطمئن ہیں یا نہیں، پاکستان کے عوام کیا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے عدالت کا نظام چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چلے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عدالت کام تھا جمہوریت کا تحفظ آئین کا تحفظ کرنا، ہماری عدالت کا کام تھا آمر کو روکنا، کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے۔
کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے!
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارے اپوزیشن کے دوست کالا سانپ کالا سانپ کی بات کر رہے ہیں، ان کی نظر میں اس آئینی ترمیم میں کوئی ایسی شق تھی جسے نکالا گیا، کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے ۔ جو کالا سانپ پالیمنٹ کے گرد گھوم رہا ہے یہ افتخار چوہدری کی عدالت ہے۔ اس کالے سانپ نے میں شمار نہیں کر سکتا کہ کتنے وزیر اعظموں کو برطرف کروایا۔
ہم نے آئین سے 58 ٹو، بی نکالی دی تو عدلیہ نے یہ اختیار خود لے لیا
چئیرمین بلاول نے کہا، جنرل مشرف نے وردی میں الیکشن لڑا تو اجازات عدالت نے دی ، ججز آئین اور جمہوریت کو تحفظ دینے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے۔ ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلہہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا ۔
مسٹر جسٹس دراب پٹیل کا حوالہ
بلاول بھٹو نے مثالی کلین کردار کے حامل جج مسٹر جسٹس دراب پٹیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی عدالت نے جو انصاف دلوایا وہ جسٹس دراب پٹیل نے اپنے آرڈر میں لکھا تھا، جسٹس دراب پٹیل کو چیف جسٹس بننا تھا اس کے درمیان پی سی او جج تھے، جسٹس دراب پٹیل کے لیے کرسی کی اہمیت ہوتی تو وہ پی سی او جج بنتے، جسٹس دراب پٹیل نے چیف جسٹس کی کرسی کو لات مار کر استعفی دے دیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں آئینی عدالت بنانے کا وعدہ کیا، 2024 میں بھی آئینی عدالت میرے منشور کا حصہ ہے ۔ سیاست میں ضد نہیں ہوتی، اگر ہم اپنی ضد پر قائم رہیں تو کامیابی مشکل ہوگی۔
پاور ہم ان سے نہیں چھین رہے،، پاور انہوں نے ہم سے چھینی تھی
بلاول بھٹو نے کہا کہ "جمہوریت کے چمپئن" افتخار چودھری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو باہر پھنک دوں گا۔ افتخار چودھری کی دھمکی میں آکر 18 ویں ترمیم کی گئی، یہ عدالت کالا سانپ بن کر 18 ویں ترمیم کے گرد گھوم رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئینی بینچ بنانے جارہے ہیں، جب سینیٹ بنائی تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پارلیمان پر پارلیمان بنا رہے ہو ، یہ سمجھتے ہیں یہ پاور ہم ان سے چھین رہے ہیں، یہ پاور انہوں نے ہم سے چھینا۔
جج کو جج لگائے، جج کو جج ہٹائے؛ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت ہو یا آئینی بنچ عوام کا کام ہونے جارہا ہے، وفاقی عدالت کو تمام صوبوں میں برابر کی نمائندگی دے رہے ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جج جج کو لگائے ، اور جج جج کو ہٹائے، وہ کہتے ہیں "سیاست دان کون ہوتا ہے" ، ارے ہم منتخب نمائندے ہیں۔ جج لگانے کا اختیار وزیراعظم سے چھین کر چیف جسٹس کو دیا گیا۔ خوف تھا خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو جج تعینات کرے گی تو نظام تباہ ہوجائے گا۔ جب ایک آمر ججز کو تعینات کررہا تھا تو کیا اس کا راستہ کسی نے روکا ؟
بلاول بھٹو نے کہا، ہم نے ججز کو عادت لگائی تھی کہ "چیف تیرے جان نثار بے شمار بے شمار "۔ پاکستان کے عدالتی نظام کا دنیا میں مذاق بن گیا ہے۔
یہاں عدلیہ وزیر خارجہ مقرر کرسکتی ہے، ڈیم بنا سکتی ہے، پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی۔ بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کا کیا کام ہے۔
کسی نہ کسی وقت ہم نے یہ دروازہ بند کرنا تھا ، ہم یہ دروازہ بند کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو تعداد ہے کیسز کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس سے زیادہ تعداد ہے ہائی کورٹس میں۔
انقلابی کام ہونے جا رہا ہے
چئیرمین بلاول نے کہا کہ اس آئینی ترمیم میں کچھ ایسی شقیں ہیں جو 100 فیصد اتفاق رائے سے پاس ہوئی ہیں، آئینی ترمیم ہونے جا رہے ہیں اور اس میں ایک انقلابی کام ہونے جا رہا ہے، آئینی اصلاحات میں جے یو آئی نے جو تجویز دی اس کو ویلکم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سارے عمل میں جو محنت سیاسی جماعتوں نے کی ان کا شکر گزار ہوں ، مولانا فضل الرحمان کا شنر گزار ہوں ، نواز شریف کا شکر گزار ہوں ، دل سے کہہ رہا ہوں پاکستان تحریک انصاف کا شکر گزار ہوں ، ہم آپ کی سیاسی مشکلات کا احساس کرتے ہیں ، جتنا آپ کے پاس اسپیس تھا اتنا آپ حصہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی جماعت کے بغیر تو یہ کام ہو ہی نہیں سکتا تھا، تاریخی کام میں آپ کا کردار ہے۔ اس سیاسی صورتحال میں یہ سیاسی کارنامہ ہے ۔