ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد ضرور جائیں گے، مذاکرات عمران کی رہائی کے بعد! علی امین کا نیا مؤقف

Ali Amin Gandapur, PTI protest, November 24, D Chowk, Mohsin Naqvi
کیپشن: وزیر داخلہ محسن نقوی کے پی ٹی آئی کی دھمکیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے صاف انکار کے بعد پی تی آئی کے 24 نومبر احتجاج کے مرکزی کردار علی امین گنڈاپور کا نیا مؤقف سامنے آیا ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ ہر صورت اسلام آباد جا کر ""احتجا کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز وزیر داخلہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 24 نومبر کو کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لئے پی ٹی آئی کو انگیج کریں۔ ج
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  وزیر داخلہ محسن نقوی کے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے واضح انکار کی خبریں شائع ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے مؤقف میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اعلان کر دیا کہ عمران خان کی رہائی کے بعد ہی مذاکرات ہونگے، 24 نومبرکو ہرصورت اسلام آباد جائیں گے۔
  پشاور میں  وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور  نےتسلیم کیا کہ اب تک ان کے اور پی ٹی آئی کے حکومت سے مذاکرات نہیں ہوئے۔علی امین نے کہا، " عمران خان کی رہائی کے بعد ہی مذاکرات ہوں گے۔"

ایک نیوز چینل کے نمائندہ سے باتیں کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نےکہا کہ عمران خان کی رہائی کے بعد ہی مذاکرات ہوں گے۔ احتجاج ہو رہا ہے اور ہر صورت ہوگا، 24 نومبرکو اسلام آباد جائیں گے۔

اس سے پہلے بدھ کے روز علی امین اور بیرسٹر گوہر کے حوالے سے خبریں میڈیا میں شائع ہوئی تھیں کہ ان کی جیل میں اپنے بانی سے ملاقات میں بانی نے یہ ہدایت کی ہے کہ وہ دونوں "حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات" کیلئے خود پہل کر لیں۔ ان میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق علی امین کو بانی نے "اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات" کی ذمہ داری دی تھی اور بیرسٹر گوہر خان کو "حکومت سے مذاکرات" کی ذمہ داری دی تھی۔ آج جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی نے لگی پلٹی رکھے بغیر صحافیوں کو بتا دیا تھا کہ پی تی آئی کے ساتھ  یا   عمران خان سےکوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، جو ڈی چوک آئےگا وہ گرفتار ہوگا۔ محسن نقوی  کا مؤقف تھا کہ دھمکیوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
 سوالات کے جواب مین محسن نقوی نے بتایا تھا کہ ان کا خیبرپختونخوا حکومت سے سرکاری معاملات پر رابطہ رہتا ہے (تاہم علی امین سے مذاکرات نہیں ہو رہے)۔

جمعرات کی شام علی امین گنداپور نے بھی وزیر داخلہ محسن نقوی کے انکشاف کی تصدیق کر دی اور اس کے ساتھ ہی  اپنے بدھ کے مؤقف کے برعکس یہ کہہ دیا کہ  وہ تو حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے، وہ ہر صورت میںاسلام آباد جائیں گے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر پیش ہوئے، عدالت نے جو بھی فیصلہ دیا اس پر عمل کریں گے،  لیکن انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ڈی چوک جو کوئی بھی آئے گا وہ گرفتار ہو گا۔ انہوں نے اسلام آباد پر کسی دھاوے کی کوشش سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت کے انتظامات کو جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا تھا جن میں انٹر نیٹ اور موبائل فون سروس کی جزوی بندش تک شامل تھے۔ 

 وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ریڈزون اور ڈی چوک کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ ہے، عوام غور کریں ہر اہم قومی موقع پر احتجاج کی کال کیوں دی جاتی ہے؟ خاص مواقع پر احتجاج اور دھرنوں کی کال کیوں دی جاتی ہے؟ بیلاروس کا وفد بھی 24نومبر کو اسلام آباد پہنچ رہا ہے، امن و امان یقینی بنانے کےلیے ہر ممکن اقدام کریں گے، احتجاج کو کوئی نہیں روکتا، اسلام آباد آکر ہی احتجاج کا کیا مقصد ہے، اگر آپ نے احتجاج کرنا ہے تو جہاں آپ ہیں وہیں احتجاج کریں، اسلام آباد آکر احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

محسن نقوی نے سوالات کے جواب میں  کہ این او سی کے بغیر جلسے جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے، عمران خان سےکوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، دھمکیوں سےمذاکرات نہیں ہوتے، خیبرپختونخوا حکومت سے سرکاری معاملات پر رابطہ رہتا ہے، میں اس حق میں ہوں کہ بات چیت ہونی چاہیے، کسی ایک پارٹی سے نہیں، جس کو بھی کوئی ایشو ہے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے، ڈیڈلائن تب ہوتی ہے جب مذاکرات ہوتے ہیں،کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ دھمکیاں دیں اورپھربات چیت کریں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور بیرسٹرگوہر کل بھی بانی پی ٹی آئی سے ملے تھے، اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے تو وہ بتائیں، اگر یہ کہیں گے کہ دھرنے دیں گے تو کسی صورت مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔