ویب ڈیسک : ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے چند کنال زمین کے تنازعات ہیں جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے ایک اور واقعے میں خواتین سمیت 38 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔یہ واقعہ آج 21 نومبر کو اس وقت پیش آیا جب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والے مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر مندوری کے مقام پر اچانک نامعلوم سمت سے فائرنگ کر دی گئی۔جبکہ یہ قافلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں سفر کر رہا تھا۔ اس سے پہلے 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں بھی ایسے ہی ایک قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے ۔ جس کے بعد سے پاڑہ چنار سے پشاور جانے والی سڑک آمدو رفت کے لیے بند تھی جسے حال میں ہی دوبارہ کھولا
اس سے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ایک ایسے ہی قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سے پاڑہ چنار سے پشاور جانے والی سڑک آمدورفت کے لیے بند تھی جسے حال ہی میں دوبارہ کھولا گیا تھا۔ تاہم یہاں سفر کے لیے پولیس سمیت ایف سی کی سکیورٹی میں مسافر گاڑیاں قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔کرم میں جو آج دردناک واقعہ پیش آیا ہے اس پر ابھی ملزمان کا علم نہیں ہوا نہ کسی کا موقف سامنے آیا ہے لیکن ا س علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ پرانی ہے دراصل ان تنازعات کے پیچھے چھپے عوامل کا جائزہ لیا گیا تو ان تنازعات کے پیچھے زمین کی ملکیت کا ایک اہم کردار ہے۔
کرم کے رہائشی کہتے ہیں کہ 2010 میں پاکستان سے زمینی رابطے منقطع ہونے پر افغانستان کے راستے اپنے ہی ملک میں واپس داخل ہونے کے سفر میں ایک طرف طالبان کی گولی کا نشانہ بننے کا خوف رہتا تو دوسری جانب نیٹو فوج کا ڈر ذہن پر سوار ہوتا ہے ۔شہری کا کہنا ہے کہ ان کے والد 2008 میں جبکہ ایک بھائی 1987 میں فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہاں فسادات کی وجہ فرقہ ورانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ یہاں کی سونا اگلتی وہ زمین ہے جس پر قبائل اور مسلک میں بٹی کرم کی آبادی اب تک سینکڑوں جانیں گنوا چکی ہے لیکن حکومت آج بھی اس مرکزی مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
دراصل اس علاقے کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے ۔ یہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے ۔پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے لیکن یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ ہیں۔اسی طرح اس علاقے میں جیش محمد اور سپاہ صحابہ جیسی کالعدم شدت پسند تنظیموں کی موجودگی بھی ہے۔ ضلع کرم کا صدر مقام پاڑہ چنار ہے جہاں آبادی کی اکثریت اہلِ تشیع مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔پاڑہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔’کرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سےگزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریبا سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ برصغیر میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔وہی زمینیں جن کی ملکیت پر آج اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں میں لینڈ ریکارڈ آج تک موجود ہی نہیں ہے۔ لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع میں مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔
آج یہاں زمین کا تنازعہ کم از کم پانچ مختلف مقامات پر موجود 10 یا اس سے زائد دیہاتوں اور قبائل کے درمیان ہے جن میں زمین کے ساتھ ساتھ مسلک کی تقسیم بھی موجود ہے یعنی متنازع زمینوں پر اہل تشعیع اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا دعوی ہے۔
پیواڑ اور گیدو، تری منگل اپر کرم میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع دیہات ہیں۔ پیواڑ میں اہل تشیع کی اکثریت جبکہ گیدو اور تری منگل میں اہلسنت سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے۔ یہاں متنازع زمین موجود ہے جس پر ان دیہاتوں کے باسی دعوی کرتے ہیں اور بعض اوقات معاملہ فسادات تک پہنچ جاتا ہے۔
بوشہرہ اور ملی خیل بھی اپر کرم یعنی پاڑہ چنار میں واقع دو دیہات ہیں۔ یہاں حالیہ لڑائی دو افراد کے درمیان چند کنال زمین کے تنازعے پر شروع ہوئی جو بعد میں پورے ضلع میں پھیل گئی اور درجنوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنی۔ان دونوں علاقوں میں مذہبی لحاظ سے آبادی مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اور یہاں جس زمین پر جھگڑا ہے، اس کے دعویدار قبائل نہیں، بلکہ چند افراد ہیں۔ تاہم کسی بھی لڑائی کی صورت میں دونوں فریقین کا ساتھ ان کے قبائل دیتے ہیں، چاہے وہ ضلع بھر میں کہیں بھی آباد ہوں۔مقبل اور کنج علیزئی بھی اپر کرم میں افغانستان کی سرحد پر واقع دو دیہات ہیں، جہاں زمین کی ملکیت کا تنازع کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ مقبل میں اہلسنت جبکہ کنج علی زئی میں اہل تشیع آباد ہیں اور اس زمین پر ہونے والا تنازع بھی پرتشدد واقعات پر ختم ہوتا ہے۔
کرم کی امن کمیٹی کے رکن نے بتایا ا کہ شہریوں اور مقامی عمائدین کی ’مسلسل درخواستوں کے بعد لینڈ کمیشن تو بنایا گیا مگر ابھی تک اس کمیشن نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔‘’ہمیں حکومت اور اتھارٹیز سنجیدہ نہیں نظر آتے جبکہ لڑائی میں شامل بعض گروپس نے بھی کام سے روکنے کی کوشش کی ہے۔‘
تاہم حکام کہتے ہیں کہ لینڈ کمیشن اپنا کام کر رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود نے بتایا کہ زمین کے تنازعات کے حل کے لیے ’حکومت میں جو سٹیک ہولڈرز ہیں انھوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور مسئلے کے حل تک پہنچ گئے ہیں۔‘دوسری جانب علاقے میں مقامی افراد کے پاس اسلحہ کی موجودگی سے متعلق سوال پر انھوں نے تشویش کا اظہار کیا اور تسلیم کیا کہ دونوں مسلک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے پاس اسلحہ موجود ہے جو ’واپس لینے کی ضرورت بھی ہے۔‘
اگرچہ حالیہ کچھ برسوں میں ایسے فسادات کی وجہ بظاہر زمین کے کسی نہ کسی ٹکڑے پر ہونے والی لڑائی ہی تھی لیکن ماضی میں ضلع کرم میں زمین کی ملکیت کے تنازع کے علاوہ بھی فرقہ ورانہ فسادات کی ایک تاریخ موجود ہے۔
کرم میں پہلی فرقہ وارانہ لڑائی 1938 میں اس وقت ہوئی جب غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لکھنو میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز ہوا۔ یہاں دوسرا بڑا فرقہ ورانہ واقعہ 1966 میں صدہ میں ایک ماتمی جلوس کے دوران ہوا۔1971 میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے مینار کی تعمیر تیسرے بڑے فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ بنی جبکہ 1977 میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے موذن پر قاتلانہ حملے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ پانچواں بڑا واقعہ 1982 میں صدہ میں ہوا۔14 سال بعد 1996 میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد لڑائی شروع ہوئی اور پھر پاڑہ چنار ہائی سکول میں سنی طالب علموں کے قتل کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات کا آغاز ہوا۔2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے یہاں فرقہ واریت کی ایک نئی لہر کی بنیاد رکھی جو اب تک ہونے والے تمام فسادات سے زیادہ طویل اور خونریز ثابت ہوئی۔2007 میں ضلع کرم میں ملکی تاریخ کے شدید فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں پہلی مرتبہ فریقین نے ایک دوسرے کے دیہات پر حملے کر کے سینکڑوں مکانات نذرِ آتش کیے جبکہ شیعہ، سنی آبادی کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔اپریل 2007 میں ربیع الاول کے جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ فسادات کا باعث بنا اور پھر نومبر 2007 میں ایک مبینہ قتل کے الزام کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ یہ فسادات اس قدر شدید تھے کہ ایک امتحانی ہال میں ڈیوٹی پر موجود اساتذہ کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلایا گیا، جبکہ مسافر گاڑیاں روک کر سواریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف چار سالوں میں یہاں 1600 سے زائد افراد ان فسادات میں ہلاک ہوئے، قبائلیوں کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ان فسادات میں پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
2011 میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا اور فرقہ ورانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش کی جس کے بعد ٹل پاڑہ چنار سڑک کھولی گئی مگر یہاں طویل عرصے تک سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رہی اور درجنوں چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔محمود علی خان کے مطابق ’ان فسادات کا سبب بننے والا چند کنال رقبہ سینکڑوں جانیں لے گیا ہے، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔‘