روزینہ علی: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل منظور کر لی۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جیل ٹرائل ممکن ہے لیکن اس کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں، جیل ٹرائل سے متعلق 29 اگست، 12 ستمبر، 25ستمبر ، 3 اکتوبر اور 13 اکتوبر کے نوٹی فکیشنز غیر قانونی قرار دیئے جا رہے ہیں۔ کابینہ کی منظوری کے بعد 15 نومبر کو جیل ٹرائل کے نوٹی فکیشن کا ماضی پر اطلاق نہیں ہو گا، 29 اگست کے بعد ہونے والے ٹرائل کی تمام پروسیڈنگ کاالعدم قرار، عدالت نے جیل ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جج تعیناتی درست قرار دے دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یاان کیمرا ہوسکتا ہے:
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے منگل کی صبح سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو منگل کی شام جاری کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس بنچ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف بھی فیصلہ جاری کیا۔
عدالت نے جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے کہا کہ غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یاان کیمرا ہوسکتا ہے۔
فیصلے میں قرار دیا گیا کہ 13نومبرکو کابینہ منظوری کے بعدجیل ٹرائل نوٹیفکیشن کاماضی پراطلاق نہیں ہوگا۔
عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف بھی فیصلہ جاری کیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کا اطلاق ماضی کے ٹرائل پر نہیں ہوگا۔غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے،
قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یا ان کیمرا ہو سکتا ہےْ۔ منگل کے روز عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا اور بتایا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔