روزینہ علی : اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پاکستان تحریکِِ انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی، وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے۔
عدالتی چارج کالعدم قرار دینے کی استدعا
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے روسٹرم پر آ کر دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیے گئے بغیر جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج بھی کالعدم قرار دے۔
عدالت کی سلمان اکرم راجہ کو ہدایت
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی استدعا پر عدالت نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل سے متعلق اختیار عدلیہ کے پاس ہے ایگزیکٹو نے اس پر صرف عمل کرانا ہوتا ہے، عدالت نے سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی کہ آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل پر اعتراضات سے متعلق دلائل دیں۔
عدالتی چارج پر اعتراض
سلمان اکرم راجہ نے عدالتی استفسار پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیدیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس عدالت کے سامنے ریکارڈ پیش کیا تھا، ہم نے دستاویزات دیکھے ہیں تعیناتی کیلئے کارروائی کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوا جس پر وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں تو وہ دستاویزات بھی نہیں دکھائے گئے۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ذہن میں بھی یہی سوال تھا لیکن دستاویزات دیکھنے کے بعد صورتحال واضح ہوئی، آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل ناقابلِ سماعت ہونے کے اعتراض کا جواب دیں۔
اوپن کورٹ اور سیکیورٹی خدشات
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگست کو اوپن کورٹ میں جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا ،اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے ،چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیے گئے بغیر جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا، شاہ محمود قریشی کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
سلمان اکرم راجہ کی جانب سے جوڈیشل ریمانڈ کی منظوری پر اعتراض اٹھائے جانے کے بعد عدالت نے ریمارکس دیئےکہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جس میں سپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے، سیکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اضافہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ایک سپیشل رپورٹ تھی جس میں سیکیورٹی خدشات کا ذکر کیا گیا، سی سی پی او نے رپورٹ وزارت داخلہ کو بھیجی، وزارتِ داخلہ نے رپورٹ وزارت قانون کو بھیج دی، وزارتِ قانون نے وہ نوٹیفکیشن ٹرائل کورٹ کے جج کو بھیجا۔
عدالتی ریمارکس سننے کے بعد سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا ہے جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائی ہیں جس پر عدالت نے پھر ریمارکس دیئےکہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ اور وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر نہیں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالتی ریمارکس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ نوٹیفکیشن میں جنرل سیکورٹی خدشات کی بات کی گئی ہے۔
عدالتی فیصلہ
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیئے کہ حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ جیل ٹرائل کی درخواست آئے تو عدالت نوٹس کر کے دوسرے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے۔
سلمان اکرم راجہ کے دلائل سننےکے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔