پنکی پیرنی مرغیاں جلاتی ہیں اُن کے پاس موکل ہیں جس نے صوفہ ہوا میں اڑا کردکھایا ، عمران خان اور اُن کی اہلیہ میں شدید اختلافات ، نواز شریف نے اسمبلیاں توڑنے کا حکم دے دیا ،مریم نواز جادوئی گلاس ہاتھ میں پکڑتی ہیں، فلاں ادارے نے فلاں ادارے کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ، کابینہ میں شدید اختلافات ، چیف جسٹس فلاں جج سے ناراض ، چیف جسٹس نے باغ میں سیر کرتے ہوئے ساتھی جج پر چھڑی اٹھالی ، کور کمانڈر میٹنگ کا آنکھوں دیکھا حال اور مستقبل کی چال ۔
لو جی یہ ہیں وہ جعلی خبریں جن کو روکے جانے پہ چند ایک صحافی نما "سوشلائی مخلوق" شور مچا رہی ہے اور اس میں کچھ ہمارے ناعاقبت اندیش عامل صحافی بھی آواز سے آواز ملا رہے ہیں، اگر غور کیا جائے تو ہم سب صحافیوں کے لیے20 مئی پیر کے روز خوشی کا دن تھا کہ اس دن حق سچ کی فتح اور جھوٹ کو شکست دینے کا بل "ہتک عزت بل 2024" کے نام سے اسمبلی میں پیش ہوا اور بھاری اکثریت سے منظور بھی ہوگیا ، گو اس بل پر بہت سارے افراد کو بہت ساری تکلیف بھی ہوگی اور اگر خواجہ آصف کی زبان میں کہا جائے تو "مرچیں" بھی لگیں گی لیکن جو صحافی بھی سچ کا پیامبر ہوگا ایسے قوانین بننے پر خوش ہوگا کہ اس طرح سے جھوٹ کی وہ فیکٹریاں جو سوشل میڈیا کے نام پر کُھلی ہیں اُنہیں بند کیا جاسکے گا ]صرف سوشل میڈیا ہی کیوں روائتی میڈیا پر بھی یہ قانون برابری کی سطح پر لاگو ہوگا لیکن ہمارے کچھ نادان دوست صحافی بھی اس بل کو پڑھے بغیر اس کی مخالفت کررہے ہیں ، اس سے قبل جو بل تھا اس میں ایف آئی آر بھی تھی ، گرفتاری بھی ، پولیس بھی اور سول مقدمات بھی ، یہ بل تو بیشتر صحافیوں کے دل کی آواز ہے کہ سچ بولا جائے، سچ بتایا جائے اور جھوٹ کو نا پھیلایا جائے ۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ
"ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری : 6095)"
ایک اور واقعہ احادیث کی کتب میں مروی ہے کہ جس کے مطابق
ایک دن حضور ﷺ صبح کی نماز کے بعد کھڑے ہو گئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا اور پھر آپﷺ نے سورہ حج کی یہ آیت تین مرتبہ تلاوت فرمائی:’’یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو‘‘(الحج:30)"
لیکن ہم یہاں اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ ہمیں جھوٹ بولنے پر باز پرس بھی نا کی جائے ، اس بل کے مطابق یہ کوئی پولیس کیس ،گرفتاری اور لمبی قید کا معاملہ نہیں ہے ایک ٹربیونل بنایا جارہا ہے جو کسی بھی درخواست گزار کے کہنے پر کہ جس کے خلاف سوشل میڈیا یا روائتی میڈیا پر کوئی جھوٹی تہمت باندھی جائے گی متعلقہ بات پھیلانے والے کو ادارہ جاتی یا انفرادی طور پر طلب کرے گا اور ثبوت مانگے گا کہ جو بات پھیلائی جارہی ہے اس میں کتنی صداقت ہے ،اگر بات کرنے والے کے پاس کوئی ثبوت ہوگا تو وہ دے گا لیکن اگر نا دے سکا تو اسے 30 لاکھ روپے تک کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے ۔
اس بل کے تحت ایک آدمی بھی اس ٹربیونل میں ہتک عزت کی درخواست دائر کرسکتا ہے لیکن خاص کر ایسے ادارے جنہیں اس بل میں واضح تحفظ فراہم کیا گیا ہے ان میں صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان ، چیئرمین سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی ، قائد حزب اختلاف ، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر صاحبان عسکری اداروں کے سربراہان ، سپریم کورٹ ، ہائیکورٹ کے ججز صاحبان ،چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان ،کے خلاف جھوٹی خبر پھیلانا جُرم سمجھا جائے گا ، اس بل کے مطابق اس بل کے مطابق صحافی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق روائتی اور غیر روائتی ادارہ جاتی یا انفرادی ، آن لائن یا آف لائن تمام ہی میڈیم آتے ہیں ، اس ٹربیونل کی تشکیل کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس کے مطابق ہائیکورٹ کے ججز ، ڈسٹرکٹ ججز اور سپریم کورٹ کے وکلاء مین سے کسی کو بھی ٹربیونل کا ممبر بنایا جاسکتا ہے شرط یہ ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور حکومت ممبران کی تعیناتی کے لیے مشاورت کریں چیف جسٹس جو تین نام بجھوائیں اس مین سے کوئی ایک حکومت منتخب کرے اور نا کرنے کی صورت میں تین مزید نام بجھوائے جائیں اس طرح حکومت جو تین نام بجھوائے اس میں سے بھی ایک نام اسی طریقہ کار کے تحت منتخب کیا جائے گا ۔
اس میں جس کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ 30 یوم کے اندر اندر اپنی اپیل لاہور ہائیکورٹ میں دائر کرسکتا ہے جہاں کیس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا ، اس بل میں جو ایک قباحت مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر الزام لگانے والا اپنا الزام ثابت نہیں کر پاتا اور صحافی سچا ثابت ہوتا ہے تو پھر الزام تراش کو کیا سزا دی جائے گی ،یہ اہم نقطہ ہے جس پر حکومت کو بھی غور کرنا چاہیے کہ اس طرح تو ہر اُس خبر کو کہ جسے اپنا مخالف سمجھا جائے گا اور ڈیفرمیشن کا رگڑا لگایا جائے گا حکومت اس پر مزید کام کرے صحیح عامل صحافیوں سے مشاورت ضروری ہے ۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر