ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سرکاری عمارتوں پر پھٹے پرچم قومی بےحسی کی علامت

سرکاری عمارتوں پر پھٹے پرچم قومی بےحسی کی علامت
کیپشن: National Flag
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

فہد چودھری:شہر میں اہم عمارتوں پر نظر دوڑائیں تو کہیں قومی پرچم پھٹی ہوئی حالت میں لہراتا نظرآتا ہے کہیں مکمل غائب ہوتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق شہر کی اہم عمارت جنرل پوسٹ آفس (جی پی او ) پر لگا جھنڈا بھی خستہ حال ، پرچم کا کپڑا بوسیدہ ہو چکا ہے۔ سرکاری عمارتوں میں قومی پرچم نہ تو بروقت لہرایا جاتا ہے نہ اتارا جاتا ہے، غفلت کا عالم ہے کہ کسی قومی دن پر ایک بار پرچم لہرا دیا تو پھر کوئی اس کی خبر لینا گوارا نہیں کرتا

پرچم کا کپڑا بوسیدہ ہوکر پھٹ جاتا ہے ، ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ اکثر اوقات پورا پرچم ہی غائب ہوجاتا مگر کسی کو نیا جھنڈا لہرانے کا خیال نہیں آتا۔

یادرہے قومی پرچم کی بےحرمتی پر لاہورہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ  آئین کے تحت  مجرم کو تین سال کی قید دی جاسکتی ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ  کے جسٹس علی باقر نجفی نے سدرہ سحر کی درخواست  اپنے  فیصلے میں کہا  تھا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ قومی پرچم میں گہرا سبز حصہ تین چوتھائی جبکہ سفید حصہ ایک چوتھائی ہو جب کہ قومی پرچم کو دیگر رنگوں ،بدنما پورٹریٹ یا کارٹون کی شکل میں ہرگز چھاپا نہ جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ قومی پرچم کے اوپر کچھ لکھا نہ جائے جب کہ پرچم لہراتے اور اتارتے وقت سب کھڑے ہو کر سلامی دیں، قومی پرچم اندھیرے میں لہرایا نہ جائے۔فیصلے کے مطابق قومی پرچم زمین پر نہ گرنے دیا جائے ،یہ پاؤں کے نیچے ہرگز نہ آئے، پرچم ایسی جگہ نہ لہرایا جائے جہاں گندا ہونے کا خدشہ ہو۔ قومی پرچم کو نذر آتش نہ کیا جائے اوراسے قبر میں دفن نہ کیا جائے۔
رنگ برنگ جھنڈیوں، پاجامے اور کارٹون نما کھلونوں پر پاکستانی پرچم کے عکس چھاپنے پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے پرچم کی مختلف رنگوں میں اشاعت یقینی طورپر بے حرمتی کے زمرے میں آتی ہے لباس پر قومی پرچم کی اشاعت اس کی تکریم کے خلاف ہے۔
یہ پرچم 11اگست 1947کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے منتخب کیا، ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب لیاقت علی خان نے یہ پرچم منظوری کے لیئے آئین ساز اسمبلی کو پیش کیا۔

  قومی پرچم کا ڈیزائن امیرالدین قدوائی نے تیار کیا، قومی تہواروں پر قومی پرچم کا سائز 21x14فٹ ، یا 18x12فٹ، یا10x6/2/3فٹ،یا9x6/1/4فٹ رکھا جاتا ہے، جبکہ سرکاری عمارتوں پر لگائے جانے والے پرچم کا سائز 6x4فٹ یا3x2فٹ رکھا جاتا ہے، اسی طرح گاڑیوں پر لگائے جانےوالے قومی پرچم یا جھنڈے کا سائز 24x16انچ رکھا جاتا ہے اور آفس ٹیبل پر لگائے جانے والے جھنڈے کا سائز 10/1/4x8/1/4رکھا جاتا ہے.

ہر کسی کو اپنے گھر گاڑی یا عمارت پر قومی چم لگانے یا آویز اں کرنے کی اجازت نہیں ہے، قومی پرچم جن گھروں پر آویز اں ہوسکتا ہے ان میں صدر مملکت کا گھر، وزیر اعظم ، چئیرمین سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس آف پاکستان ، چیف جسٹس آف فیڈرل شریعت کورٹ، گورنرز، وفاقی وزرا اور اس عہدے کے برابر کام کرنے والے مشیر وغیرہ، وزراءاعلیٰ، صوبائی وزرا،چیف الیکشن کمشز، ڈپٹی چیئرمین سینٹ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی،سپیکر صوبائی اسمبلی، چیف جسٹس ہائی کورٹس، سفیر و ہائی کمشنرز اور ڈپٹی ہائی کمشزز اور پولیٹیکل ایجنٹ کے گھر شامل ہیں، لیکن ان میں سے صدر مملکت، وزیر اعظم ، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس آف پاکستان ، چیف جسٹس آف فیڈرل شریعت کورٹ، گورنرز، وفاقی وزرا اور اس عہدے کے برابر کام کرنے والے مشیر وغیرہ اور صوبوں کے وزراءاعلیٰ کی گاڑیوں پر تو قومی پرچم پر مبنی جھنڈے لگائے جاسکتے ہیں ,اورصوبائی وزرا،چیف الیکشن کمشز، ڈپٹی چئیرمین سینٹ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی،سپیکر صوبائی اسمبلی، چیف جسٹس ہائی کورٹس، سفیر و ہائی کمشزز کی گاڑیوں پر جھنڈے لگانے کی اجازت نہیں ہے.