ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لیبیا تارکین وطن کے لئے جہنم بن گیا، کریک ڈاون میں سینکڑوں گرفتار

https://www.city42.tv/digital_images/large/2023-06-21/news-1687357395-2435.gif
کیپشن: Serene Capture from Aljazeera News video
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: کئی سال سے عدم استحکام اورر انتشار کا شکار لیبیا ایک طرف تو  غریب ملکوں کے باشندوں کو یورپی ملکوں میں اسمگل کرنے والے گروہوں کی جنت بن چکا ہے دوسری طرف یہ ملک پناہ گزینوں کے لئے جہنم بنا ہوا ہے۔

الجزیرہ نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اتوار کی رات لیبیا کی سیکورٹی فورسز نے دارالحکومت طرابلس میں اقوام متحدہ کے ایک بند کمیونٹی سینٹر کے باہر تارکین وطن کے احتجاجی دھرنے پر چھاپہ مارا اور احتجاج کرنے والوں کو تشدد  کر کے سینکڑوں افراد کو گرفتار اور باقی کو منتشر کر دیا۔

امیگرنٹس کے لئے کام کرنے والے ایک سماجی کارکن طارق لاملوم نے پیر کو بتایا کہ فوجی راتوں رات آئے، احتجاج کرنے والوں کا کیمپ توڑ پھوڑ دیا اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا۔ حراست میں لیے گئے افراد کو عین زارا کے قریبی قصبے میں ایک حراستی مرکز بھیج دیا گیا ہے۔ دیگر  مظاہرین چھاپے س کے دوران فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس چھاپے کے دوران کم از کم ایک مہاجر کمیونٹی رہنما کو گولی مار دی گئی۔

لیبیا کی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ان مہاجرین نے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے بعد تحفظ کے لئے اکتوبر سے طرابلس کے اقوام متحدہ مرکز کے باہر ڈیرے ڈال رکھے تھے،  اور وہ لیبیا کے حکام کی طرف سےبہتر سلوک کا مطالبہ کر رہے تھے۔

 دو بچوں کی ماں سوڈانی مہاجرعائشہ بھی اکتوبر سے اپنے خاندان کے ساتھ دھرنے کے احتجاج کا حصہ تھیں اور اب حراست میں لیے گئے افراد میں شامل ہیں۔  انہوں نے ایسیسی ایٹڈ پریس کو فون پر بتایا کہ پولیس نے تارکین وطن کو مارا پیٹا اور حراست میں لے لیا۔ انہوں نے ہمارے خیمے جلا دیئے، سب کچھ جلا دیا۔"

نارویجن ریفیوجی کونسل اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نکا کہنا ہے کہا کہ اس چھاپے میں 600 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

NRC کے لیبیا کے ڈائریکٹر ڈیکس روک نے بتایا کہ اکتوبر میں تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر حراست کے بعد سے  اتوار کا واقعہ ایک تباہ کن صورتحال کی انتہا ہے۔

اکتوبر کے کریک ڈاؤن میں، لیبیا کے حکام نے 5,000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان گرفتار ہونے والوں میں سے درجنوں خواتین حاملہ تھیں۔

اس وقت لیبئین حکام نے اپنے کریک ڈاون کو غیر قانونی نقل مکانی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف ایک سیکورٹی آپریشن قرار دیا تھا۔ حراست میں لیے گئے لوگوں کو بہت خراب حراستی مراکز میں لے جایا گیا، جس پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

لیبیا میں 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت میں معمر قذافی کا تختہ الٹ دیا  گیا تھااور  قذافی کوہلاک کر دیا گیا تھا، تب سے ہی تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا افراتفری میں ڈوبا ہوا ہے۔