(سٹی 42) عہد ساز شخصیت، دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو کی آج66ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، وہ اپنی کرشماتی شخصیت کے باعث اپنی شہادت کے باوجود لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہر برس ان کی سالگرہ پر انہیں یاد کرکے لاکھوں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی کے پنٹو ہسپتال میں پیدا ہوئیں، اپنے والد ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد آمریت کیخلاف طویل جدوجہد کے باعث تین دہائیوں تک پاکستان کی سیاست پر چھائی رہیں۔
بینظیر بھٹو کا کسی اسلامی ملک کا پہلی خاتون سربراہ بننا، ان کا سیاسی پس منظر، ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بھائیوں کی اموات ، ان کی اپنی کرشماتی شخصیت اور پھر شہادت وہ عوامل تھے جنہوں نے انہیں ہمیشہ عالمی سطع پر توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔
نصرت بھٹو نے 9جو ن 1981کو کراچی سینٹرل جیل میں اپنی قید کے دوران سکھر جیل میں اسیر بینظیر بھٹو کو اُن کی سالگر ہ پر خط لکھا تھا،جس میں اُنہوں نے بینظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا میر ی پیاری بیٹی میری یاد داشت مُجھے ان دنوں کی یاد دلاتی ہے جب تمہاری پیدائش کے بعد میں تمام رات سو نہ سکی تھی کیونکہ میں چاہتی تھی کہ تُم میرے بازوں میں رہو۔
نصرت بھٹو نے خط کے آخر میں لکھا کہ ان یادوں سے میری آنکھیں بھیگ چکی ہیں، میں مزید نہیں لکھ سکتی، آج بھٹو خاندان کی اسی چہیتی بیٹی کی سالگر ہ ہے، جس کی سالگرہ پر اب ہر برس انہیں یاد کر کے ہزاروں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نےشہید محترمہ بینظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پراپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو دھرتی کی عظیم بیٹی تھیں، وہ اب پاکستان کی روشن و بینظیر پہچان ہیں، وہ آخری گھڑی تک عوام کے حقوق اور پاکستان کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتی رہیں، وہ زندگی بھر عزم، حوصلے اور صبر کے ساتھ اپنے مشن پر کاربند رہیں۔