سٹی 42 : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رہنما پاکستان تحریک انصاف شوکت بسرا پر برہم ہوگئے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 8 فروری کے عام انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی،دوران سماعت تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں بہاولنگر سے منتخب رکن اسمبلی ہوں، اس کیس میں پیش ہونا چاہتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے شوکت بسرا سے سوال کیا کہ آپ درخواست گزار علی خان کے وکیل ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں میں ان کا وکیل نہیں ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ہمیں وکیلوں کو سننے دیں، شوکت بسرا نے کہا کہ میں بھی ہائیکورٹ کا وکیل ہوں اس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ مبارک ہو آپ ہائیکورٹ کے وکیل ہیں مگر آپ تشریف رکھیں،شوکت بسرا نے استدعا کی کہ میری بات تو سن لیں، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ورنہ لائسنس منسوخ کرنےکاحکم دے کر توہین عدالت کا نوٹس بھی کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے شوکت بسرا سے سوال کیا کہ آپ کا اس کیس سے تعلق کیا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب میں کہا کہ میرا اس کیس سے تعلق نہیں لیکن میرےہاتھ میں قرآن ہے اس کی قسم کھاناچاہتاہوں، جسٹس فائز نے کہا کہ یہ نہ کریں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس کردیں گے، شوکت بسرا نے جواب میں کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان بولے کہ تقریر نہ کریں ہمارے سامنے، پہلے سن لیجیے، بالکل ہی اخلاق چھوڑ دیا ہے، آئندہ آپ نے یہ کیا تو وکالت کا لائسنس منسوخی کا معاملہ بارکوبھیجیں گے، سب نے مل کر سپریم کورٹ کو مذاق بنایا ہوا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سماعت کے دوران کہا کہ یہ نہیں ہوسکتاکہ درخواست گزار خود نہ آئے اور دوسری پارٹی کوراستہ دکھائےکہ اس درخواست کے ذریعےعدالت آجاؤ،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اس ملک کو دنیا کے لیے جگ ہنسائی کا سامان بنا دیا گیا ہے۔
بعدازاں عدالت نے 8 فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست خارج کرتے ہوئےدرخواست گزار کی عدم پیشی پر 5 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔