ویب ڈیسک : محسن بیگ گرفتاری کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی ۔ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے کے سربراہ کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسارکیا کہ کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ایف آئی اے نے جو دفعات لگائی ان پر انہیں شرمندہ ہونا چاہیے اس سے زیادہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہو گا؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے اور میں اس پر عملدرآمد کر رہا ہوں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپکو معلوم ہے پوری دنیا میں ہتک کے قانون کو کس طرح چلایا جاتا ہے آپ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔آپ لکھ کر دیں کہ آپکو کس نے ہدایات دی تھیں۔ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کیلئے مسلسل اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افریقہ کے ملکوں نے بھی ہتک کو فوجداری قوانین سے نکال دیا ہے۔صحافیوں کیلئے پاکستان غیرمحفوظ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔یہ اسی وجہ سے ہے کہ یہاں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عام شکایت ہوتی تو پھر بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی یہ تو پبلک آفس ہولڈر کی درخواست تھی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے جو کیا یہ عدالت اس کو نہیں چھوڑے گی۔عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔
محسن بیگ کے وکیل نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ویسٹ کی کارروائی ان حقائق کی عکاسی کرتی ہے، کچھ نامعلوم افراد نے قیدی محسن بیگ کے گھر میں سول ڈریس میں گھس گئے تھے، پولیس کو ایمرجنسی کال 15 بھی کیا گیا، سول افراد سے کہا گیا کہ وہ وارنٹ اور سرچ وارنٹ دکھائیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کی رٹ قائم ہونی چاہیے، قانون ہاتھ لینے کی کسی کو ضرورت نہیں۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے محسن بیگ سےمتعلق رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی،رپورٹ میں بتایا گیا کہ محسن بیگ کو گرفتار کیا، تھانے میں آمد روانگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے، موقع پرجھگڑا ہوا جس پر محسن بیگ نےایف آئی اے کے 2اہلکاروں کو مارا۔
محسن بیگ نے حوالات لے جاتے ہوئے شدید مزاحمت کی، تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا، جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ محسن بیگ کے خلاف 4 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں، لاہور اور اسلام آباد میں دو مقدمات درج کیے گئے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ وکیل کو تھانے میں رسائی دی گئی، ایف آئی اے کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟ کیا ایف آئی اےپبلک آفس ہولڈر کی ساکھ کی حفاظت کےلیےکام کر رہا ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا ایف آئی اے کاکون ساڈائریکٹرہےجوآئین کومانتاہےنہ قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہئے، بےشک کوئی ان کےگھرغلط گیاہوگامگرقانون ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس سےمتعلق جوبھی دفاع ہےوہ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے پر محسن بیگ کا جو دفاع ہے، وہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، محسن بیگ کے خلاف درخواست دینے والا شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کی طلبی پر ڈائریکٹرایف آئی اےسائبرونگ عدالت میں پیش ہوئے ، وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ڈائریکٹرایف آئی اے سائبرونگ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ایف آئی اے نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا، آپ لوگوں کو گرفتار کریں گے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جب ٹاک شومیں 4 لوگ تھے، توایک کو گرفتار کیا ، عدالت نے استفسار کیا کیا ملزم نے خود ویڈیو کو شیئر کیا تھا ؟ ڈائریکٹر ایف آئی اےسائبرونگ نے بتایا قانون موجودہےکس کیخلاف کارروائی کریں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کیا آپ قانون سےبالاتر ہیں؟ اس پروگرام میں کتنے لوگ بیٹھے تھے ؟ ایف آئی اے ڈائریکٹر سائبر ونگ نے کہا کہ پروگرام میں کل 4 لوگ شامل تھے۔
عدالت نے ایف آئی اے ڈائریکٹر کو پروگرام میں محسن بیگ کے الفاظ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جو باتیں آپ نے پڑھیں اس میں کیا ڈیفامیٹری ہے ؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر ونگ نے بتایا کہ ریحام خان کی کتاب کا ریفرنس ڈیفامیٹری ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کیلئےہےیالوگوں کیلئے؟ ہر بار آپ کوبلا کر طریقے سے سمجھایا کہ ایسا نہ کریں ، کتاب کےپیج نمبر انہوں نے پروگرام میں کہا ہے ؟
ایف آئی اےڈائریکٹرسائبرونگ نے جواب میں کہا کہ نہیں پروگرام میں کتاب کےپیج کاذکرنہیں، ملزم نے ایف آئی اے اہلکاروں کو مارا، ہم بھی آپ کے بچے ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نہ آپ میرے بچے ہیں اور نہ ہی میں آپ کاباپ۔ ایف آئی اے ڈائریکٹر نے کہا میری درخواست ہے سیکشن22عدالت دیکھ لیں، جس پر عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر ونگ کو ایف آئی آر پڑھنے کا حکم دیا۔
عدالت نے استفسار کیا کیا آپ نےگرفتاری کےبعدانکوائری کی ہے ؟ آپ کے پاس کتنی شکایتیں ہیں اورکیاسب میں گرفتارکرنا ہے ؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبرونگ نے بتایا کہ ہمارے پاس اسوقت14ہزار شکایتیں درج ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہاں عدالت میں آپ کےخلاف کیسز زیر سماعت ہے، کیاآپ نے سی ایس ایس کیاہے؟جوآپ نے پڑھا اسکا کیا مطلب ہے؟ آپ کو تو شرم آنی چاہیے،آپ اب بھی بحث کررہےہیں ، کیا اس ملک میں مارشل لالگا ہوا ہے؟
عدالت نے ریمارکس میں کہا ہم بار بارکہتےہیں آپ نےاختیارات کاغلط استعمال نہیں کرنا، سیکشن 5جوآپ پڑھ رہے ہیں کیا شکایت کنندہ نےیہ بات لکھی تھی؟ آپ کو پتہ ہے کہ پوری دنیا میں ڈیفامیشن کےکیاقوانین ہے۔
ڈائریکٹر سائبر ونگ کا کہنا تھا کہ جو قانون ہے، پارلیمنٹ نےبنایامیرا کیا قصور ہے، جس پر عدالت نے کہا اٹارنی جنرل کو طلب کرکے آپ کیخلاف کارروائی کریں گے تو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل مجھے کیوں ڈیفنڈ کریں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے بولنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہم سب جانتے ہیں کس سمت میں باتیں کی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا آپ جانتے ہونگے ہم نہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ سوسائٹی غلط سمت میں جارہی ہے تو سیاسی لیڈرشپ اسکی ذمہ دار ہے، کیا ایف آئی اے میسج دینا چاہتی ہے اظہار رائے نہیں ہونی چاہیے؟ ایف آئی اے کی جانب سے کیسا میسج بھیجا گیا، یہ آئینی عدالت ہےاور یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے ، ڈائریکٹر سائبر ونگ کی ایس او پیز سمیت عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی محسن بیگ سے متعلق کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے ساتھ اٹارنی جنرل کو بھی ایف آئی اے کے دفاع کے لیے 24 فروری کو طلب کر لیا۔
عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل مطمئن کریں کہ اس جرم سے متعلق دفعہ کوکیوں نہ ختم ہی کردیا جائے؟ عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے کہا کہ بیان حلفی جمع کرائیں کہ ان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال پرکیوں کارروائی نہ کی جائے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے کے خلاف درخواست پر سماعت جمعرات24 فروری تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی لیڈران ماحول کے ذمہ دار ہیں، عدالت نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایف آئی اے کو شوکاز نوٹس کرتے ہیں، اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔