سیف سٹی اتھارٹی کی کارکردگی کا پول کھل گیا

21 Feb, 2020 | 05:33 PM

Arslan Sheikh

( ریحان گل ) عوام کی جان ومال کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ سکیورٹی کے پیشِ نظر مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں وہیں ایسے قوانین اور پراجیکٹس بھی لگائے جاتے ہیں جو آنے والے وقت میں ملک و قوم کو کسی بھی بڑی مشکل سے بچنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔

پاکستان میں سب سے پہلے اسلام آباد میں سیف سٹی پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ اسلام آباد پولیس نے سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت شہر بھر میں 2 ہزار کیمرے نصب کیے۔ اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ کے بعد لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کی شروعات ہوئی۔ اس پراجیکٹ کو لگانے کے لیے پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی قیام میں لائی گئی ہے جس کے تحت لاہور شہر میں 8 ہزار کیمروں کی تنصیب مکمل کی گئی۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پہلی بار کیمروں پر مبنی انٹیلیجینٹ ٹریفک مینیجمنٹ سسٹم لانچ کیا گیا، اس سسٹم کے تحت لاہور شہر میں دو ہزار سے زائد مقامات پر کیمرے نصب کیے گئے۔ یہ کیمرے دیگر امور کی نگرانی کے علاوہ ٹریفک کی خلاف ورزی پر نظر رکھنے کیلئے لگائے گئے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اس گاڑی کی تصویر کھینچی کر پھر یہ تصویری ثبوت چالان کے ٹکٹ کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والے کے گھر کے پتے پر بھیجے جانے لگے۔

سیف سٹی کی جانب سے چالان والڈ سٹی اتھارٹی کو بھیجے جانے پر انکشاف ہوا۔ ایل ای جی 1373 والڈ سٹی اتھارٹی کے سرکاری رکشہ کو الاٹ کیا گیا ہے، مذکورہ نمبر غیر قانونی طور پر سفید ہنڈا سٹی کے زیراستعمال ہے۔ اس معاملے کا انکشاف سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے ای چالان والڈ سٹی اتھارٹی کو بھجوائے جانے پر ہوا۔

والڈ سٹی اتھارٹی نے سی سی پی او لاہور اور سیف سٹی اتھارٹی کو خط لکھ کر سرکاری نمبر کا غیرقانونی استعمال کرنے کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی۔

دونوں محکموں کی جانب سے گاڑی فوری ٹریس کرکے قانونی کارروائی کرنےکی یقین دہانی کروائی گئی، مگر دو روز قبل والڈ سٹی اتھارٹی کو اسی گاڑی اور رجسٹریشن نمبر کا ایک اور چالان موصول ہوگیا ہے۔

مزیدخبریں