ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور ٹریفک پولیس میں عمارہ اطہر کا دور تمام، اطہر وحید کےدورکا آغاز 

Ammara Athar CTO, Lahore Traffic Police, City42 Athar Waheed,
کیپشن: لاہور ٹریفک پولیس کی سربراہ عمارہ اطہر کو پوسٹ سے ہٹا کر اطہر وحید کو چیف ٹریفک آفیسر بنا دیا گیا ہے، اطہر وحید ڈی آئی جی ہیں، انہین اس پوسٹ پر مقرر کرنے کے ساتھ پوسٹ کو بھی اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ عمارہ اطہر کو نئی پوسٹنگ ابھی نہیں ملی۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: لاہور پولیس  کے سی سی پی او نے ڈی آئی جی اطہر وحید کو چیف ٹریفک پولیس آفیسر مقرر کر دیا۔ اس تقرر کے ساتھ سی سی پی او نے لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کی پوسٹ کو اپ گریڈ کر کے ڈی آئی جی رینک کی پوسٹ بنا دیا ہے۔

لاہور کی پولیس کی چیف ٹریفک آفیسر عمارہ اطہر کو سرِ دست اسسٹنٹ آئی جی ڈسپلن تعینات کردیا گیا،اے آئی جی ڈسپلن دوست محمد کھوسہ کو   ایس پی پولیس سکول آف انٹیلی جنس لاہورتعینات کیا گیا۔

  عمارہ اطہر کی جگہ ان کے شوہر  ڈی آئی جی اطہر وحید کوسی ٹی او لاہور تعینات  کر دیا گیا ۔

 پنجاب  پولیس نے گزشتہ سال 12 دسمبر کو  BS-19  کی آفیسر عمارہ اطہر کو لاہور کی چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) تعینات کیا تھا۔ عمارہ اطہر  وہ صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کنٹرول چیف  کی اہم ذمہ داری سنبھالنے والی پہلی خاتون پولیس افسر تھیں۔ وہ لاہور میں کام کرنے والی  چوتھی خاتون پولیس افسر بھی ہیں۔ ان خواتین کی لاہور پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر موجودگی سے پولیس کے میل ڈومیننٹ فورس ہونے کے از حد سخت تصور مین کسی حد تک نرمی کا تاثر آیا ہے۔

 محترمہ عمارہ اطہر نے ریٹائرڈ کیپٹن مستنصر فیروز کی جگہ لی تھی، جو اس سے پہلے ایک سال سے لاہور کے سی ٹی او کے عہدے پر فائز تھے۔

عمارہ اطہر کے سی ٹی او لاہور بننے سے پہلے گوجرانوالہ میں بھی ایک خاتون آفیسر عائشہ بٹ  ہمہ وقت سڑکوں پر رہنے والی ٹریفک پولیس فورس کی قیادت کرتے ہوئے شاندار پرفارمنس دے رہی تھیں۔

عمارہ اطہر کا لاہور ٹریفک پولیس میں ایک سال سادہ سی روٹین آفس جاب کا سال نہیں تھا، انہوں نے ٹریفک کے بگڑے ہوئے سسٹم کو راہ پر لانے کے لئے بلامبالغہ دن رات ایک کیا، شہریوں خصوصاً تربیت سے محروم لاکھوں  نوجوانوں کی سڑکوں پر موجودگی ٹریفک کیلئے بڑا ہیزرڈ تھی، تربیتی اداروں کی عدم موجودگی ایک اور رکاوٹ تھی، لائسنس نہ بنوانے کا کلچر ایک چیلنج تھا اور سڑکوں کی تنگی سے لے کر ٹریفک کو آرگنائز کرنے والے سٹاف کی کمی تہ در تہہ مسائل تھے جن سے نبرد آزما  عمارہ اطہر کا ایک سال جیسے پلک جھپکتے مین گزر گیا، آج جب وہ سی ٹی او لاہور کا آفس چھوڑ کر جا رہی ہیں تو لائسنس بنوانے والوں کی تعداد سے لے کر ٹریفک کے حادثات پر کنٹرول تک اور ٹریفک کی باٹل نیک ایریاز میں روانی سے لے کر  رولز کی عمومی پابندی تک تمام انڈیکیٹر بہتری کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ البتہ پبلک کو اس دوران یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ہر اہلکار کو روزانہ 25 لازمی چالان کرنے کا ٹارگٹ دے کر عمارہ اطہر نے اپنی فورس کی ارئینٹیشن کو متاثر کیا۔ اب بہت سے چوراہوں ور سڑکوں پر ٹریفک پولیس کے اہلکار دن بھر ٹریفک کو رواں رکھنے پر توجہ دینے کی بجائے چالان کے قابل شکار مارنے کی ہی تاک میں رہتے ہیں۔ 

عمارہ اطہر نے ماڈل ٹاؤن، لاہور ڈویژن میں ایس پی کے طور پر بھی کافی عرصے تک خدمات انجام دیں۔ اس چیلنجنگ پوسٹ پر ان کی پرفارمنس کسی طرح بھی مرد آفیسرز سے کم نہیں رہی تھی بلکہ کرائم کنٹرول کے ضمن مین ان کا ریکارڈ مرد آفیسرز سے زدرے بہتر رہا۔

آئی جی پی کا فیلڈ میں خواتین افسران کی تعیناتی کا تجربہ ’ثمر لایا‘

 گوجرانوالہ کی محترمہ عائشہ بٹ کو اپنی تعیناتی کے بعد مختصر عرصے میں گوجرانوالہ ٹریفک پولیس میں اصلاحات لانے پر صوبائی پولیس افسر کی جانب سے دو تعریفی خطوط ملے۔ انہوں نے گوجرانوالہ میں ملک کا پہلا ٹریفک تھیم پارک قائم کیا، جس میں ایک طویل واک ٹریک ہے جہاں ٹریفک قوانین کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے دونوں طرف ٹریفک سائنز لگائے گئے ہیں۔ گوجرانوالہ میں اس اقدام کو سراہتے ہوئے، سندھ پولیس نے پنجاب پولیس سے اس اسکیم کو شیئر کرنے کی درخواست کی تھی۔

 آئی جی نے محترمہ عائشہ بٹ اور ان کی ٹیم کو شاندار خدمات انجام دینے پر نقد انعام بھی دیا۔  9 مئی کے کیسز کے حوالے سے لاہور انویسٹی گیشن کے ایس ایس پی ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری کی کارکردگی اور جس طرح انہوں نے شواہد اکٹھے کیے اور چالان جمع کروائے، وہ ایک اور وجہ تھی جس نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو ایک خاتون افسر کو لاہور کی سی ٹی او تعینات کرنے کی ترغیب دی۔ انویسٹی گیشن ایس ایس پی ہونے کے ناطے محترمہ انوش مسعود  چوہدری نے قتل اور ڈکیتی سمیت کئی ہائی پروفائل کیسز بھی حل کیے ہیں۔

اسی طرح لاہور صدر ڈویژن کی ایس پی سدرہ خان، کرائم ریکارڈ آفس (سی آر او) ایس پی عقیلہ نقوی اور گلبرگ کی اے ایس پی سیدہ شہربانو کو بھی آئی جی نے صوبائی دارالحکومت میں تعینات کیا ہے۔ حال ہی میں، وہ کہتے ہیں، محترمہ شہربانو کو آئی جی نے 'سب سے متاثر کن خاتون پولیس افسر' کے طور پر شارٹ لسٹ کیا ہے، جنہوں نے بعد میں انہیں مارچ میں دبئی میں منعقد ہونے والے ورلڈ سمٹ ایوارڈ-2024 میں شرکت کے لیے نامزد کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ فیروز کے علاوہ دو دیگر افسران - ایلیٹ فورس کے ڈی آئی جی صادق ڈوگر اور ڈی آئی جی سید امین بخار نے بھی پی ایس سی اے سی او او کے عہدے کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم، پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان کی سربراہی میں آئی جی ڈاکٹر عثمان انور، سیکرٹری سروسز اور ہوم سیکرٹری پر مشتمل ایک پینل کے انٹرویو کے بعد، فیروز کو ان کے حریفوں پر ترجیح دی گئی، خاص طور پر لاہور کے سی ٹی او کے طور پر ان کی کارکردگی کی وجہ سے۔ پیر کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے، آئی جی پی نے فیروز کو پی ایس سی اے سی او او کے عہدے کے لیے سفارش کی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے چیف سیکیورٹی آفیسر حمزہ امان اللہ کا بھی تبادلہ کیا اور انہیں آئی جی پی پنجاب صاحبزادہ بلال عمر کی جگہ پرسنل اسٹاف آفیسر (پی ایس او) تعینات کیا، جنہیں سینٹرل پولیس آفس میں اے آئی جی ایڈمن تعینات کیا گیا ہے۔

  اطہر وحید کی تعیناتی کے بعد سی ٹی او کی سیٹ کو ڈی آئی جی رینک پر اپ گریڈ کیا گیا ہے۔

 اس سے قبل کیپٹن (ر) مبین شہید بھی ڈی آئی جی رینک پر سی ٹی او لاہور تعینات ہوئے تھے، ڈی آئی جی اطہر وحید کی تعیناتی ایک اہم قدم ہے اور یہ لاہور پولیس کے لیے ایک نیا باب کھولے گا۔

 خیال رہے کہ ڈی آئی جی اطہر وحید تبدیل ہونے والی سی ٹی او عمارہ اطہر کے شوہر ہیں جو خود بھی لاہور پولیس کی اہم شخصیت ہیں۔

چیف ٹریفک آفیسر   ایس ایس پی رینک کا ایک افسر  ہوتا ہے جسے اختصار کے ساتھ سی ٹی او  کہا جاتا ہے ۔سٹی ڈسٹرکٹ  لاہور،راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ میں ٹریفک پولیس کا انچارج  سی ٹی او ہوتا ہے اور وہ اپنے متعلقہ  چیف پولیس آفیسرزسی پی اوز کے آپریشنل کنٹرول میں ہوتا ہے، جبکہ لاہور میں سی ٹی او  کا آپریشنل اور  انتظامی کنٹرول  سی سی پی او  کے تحت ہوتا ہے۔