(سٹی42) قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری کی آج 40 ویں برسی منائی جارہی ہے۔
ابوالاثرحفیظ جالندھری14 جنوری 1900 کومشرقی پنجاب کے شہرجالندھر میں پیدا ہوئے، ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا، قلمی نام حفیظ جالندھری تھا، ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی، اس کےبعد اسکول میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد رسمی تعلیم کے حوالے سے وہ آگے نہ بڑھ سکے، ساتویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد دہلی، میرٹھ اوربمبئی وغیرہ گھومتے گھامتے انھوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبورحاصل کیا، ان کی شخصیت میں نکھار لانے میں ان کے ہم عصرمشاہیرسرعبدالقادر، سید سجاد حیدر یلدرم، سرراس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
حفیظ جالندھری کی کردار سازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ رہاجن سےمتاثر ہوکرانہوں نےانقلابی نظمیں لکھیں، حفیظ جالندھری نے جہاد کشمیر میں بھی حصہ لیا، انہوں نے کشمیر کے لیے ترانہ وطن ہمارا آزاد کشمیر بھی تحریر کیا، ادبی کاوشوں کی ابتداء 1922 میں کی، 1922 سے1929 تک متعدد ادبی جرائد جن میں نونہال، گلزار داستان، محزن اور1962 سے1963 تک کراچی کےاردو روزنامے میں کالم نگاری بھی کی، نظموں کا پہلا مجموعہ نغمہ زار1935 میں شائع ہوا۔
حفیط جالندھری 1948 میں پاک فوج کے ڈائریکٹر آف موریل بھی معتین ہوئے، صدرایوب کے مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیئے، رائرٹرز گلڈ کے ڈائریکلٹر جنرل بھی رہے، ان کی مقبول نظموں میں تصویر کشمیر، ابھی تو میں جوان ہوں گیت بھی بہت مقبول ہوا جسے ملکہ پکھراج نے گایا، حفیظ جالندھری نے شاہ نامہ اسلام بھی تخیلق کیا۔
21 دسمبر1982کو حفیظ جالندھری کا 82 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، انہیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا، کسی اور جگہ دفن کرنے کے حوالےسے معاملہ سات سال تک التوا کا شکار رہا پھر اقبال پارک میں انہیں دفن کیا گیا، حفیظ جالندھری کو ان کی ادبی خدمات پرہلال امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازاگیا۔