ویب ڈیسک : مفرور افغان صدراشرف غنی کے دبئی میں پناہ لینے پر سوالات اٹھنے لگے۔اشرف غنی کو دبئی نے انسانی بنیادوں پر پناہ دی۔ سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب متحدہ عرب امارات نے عالم اسلام کے کسی رہنما کو پناہ دی ہو غیرملکی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات پہنچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ملک سلامتی اور رازداری فراہم کرتا ہے۔ یہاں پرسکون رہنے اور اپنے پیسے لگانے کے کافی مواقع ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے سیاستدان اور سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پناہ کے حصول کے لیے متحدہ عرب امارات پہنچ رہے ہیں۔
فوجی بغاوت میں اقتدار سے باہر ہونے والے تھائی لینڈ کے وزیر اعظم تھاکسن شیناواترا اور ینگ لک شیناوترا نے بھی متحدہ عرب امارات میں پناہ لی تھی۔
اس کے علاوہ سپین کے سابق بادشاہ ہوان کارلوس، فلسطینی رہنما محمد دہلان اور یمن کے مرحوم رہنما علی عبداللہ صالح کے بڑے بیٹے احمد علی عبداللہ صالح نے بھی دبئی
میں پناہ لی تھی۔
سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی متحدہ عرب امارات کو اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات کا ہی رخ کیا۔
متحدہ عرب امارات کے پاس جدید ترین کیمرے ہیں اور سکیورٹی کا بہترین نظام ہے۔ شاہی خاندان کی حکومت مضبوط گرفت ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں پہنچنے والے سیاسی افراد محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ تاہم اس بار متحدہ عرب امارات نہیں چاہے گا کہ اشرف غنی ان کی سرزمین کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں۔ کیونکہ متحدہ عرب امارات میں افغانوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات نہیں چاہے گا کہ اس کی سرزمین افغان سیاست کا اکھاڑہ بن جائے۔