(مانیٹرنگ ڈیسک) شاعر مشرق، مفکر پاکستان ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 84ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، انہوں نے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔
شاعر مشرق اور تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کیا، کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ انگلیںڈ سےواپسی پر وکالت بھی کی مگر پھر زیادہ وقت شعر و شاعری کو دینے لگے.
انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے نہ صرف شاعری کی بلکہ فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، آپ کی شروع کی شاعری میں وطینت اک عنصر نمایاں تھا مگر تھوڑےعرصے بعد آپ پرعیاں ہوگیا کہ مسلمانان ہند کےمستقبل کے لیے علیحدہ وطن ضروری ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو آزدی کے حصول کیلئے عملی جدوجہد پر آمادہ کیا ،علامہ اقبالؒ نے ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی تلقین کی، انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایسے وقت میں راستہ دکھایا جب وہ غلامی کے اندھیروں میں اپنی منزل کا سراغ کھو چکے تھے۔
علامہ اقبالؒ کی فکر سے وابستگی کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ان کی سوچ کو ناصرف سمجھیں بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں وہ ریاست بنائیں جس کا تصور انہوں نے پیش کیا ۔علامہ اقبالؒ نہ صرف بڑوں کے شاعر ہیں بلکہ بچے بھی ان کی شاعری کو بہت پسند کرتے ہیں،ان کی شخصیت اور شاعری کا قوم کی تشکیل میں گہرا اثر ہے۔
ان کی مشہور تصانیب میں بانگ درا،بال جبریل،ارمغان حجاز ،شکوہ جواب شکوہ شامل ہیں،علامہ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔آج مفکر پاکستان کی یاد میں سادگی سے تقریبات ہوں گی ،ٹیلی وژن پر پروگرامز نشر کیے جائیں گے۔
پاکستان کی آزادی سے قبل ہی علامہ اقبال21 اپریل 1938 کو خالق حقیقی سے جاملے مگر ان کی شاعری اور افکار اب بھی زندہ و جاوید ہیں، قوم کے اس عظیم شاعر کا مزار لاہور میں بادشاہی مسجد کے احاطے میں واقع ہے۔