سٹی42: ایک وقت میں جمہوریت، آزادیِ فکر، خیالات کے تنوع اور بنیادی حقوق کے احترا م، جدیدیت اور دنیا بھر کی ثقافتوں کا دلکش گلدستہ سمجھا جانے والا شہر لندن اب رہنے کے لئے خطرناک ترین شہر بن چکا ہے جہاں ہر ایک گھنٹےمیں جنسی زیادتی کا ایک نیا واقعہ رپورٹ ہو رہا ہے۔
لندن میں گزشتہ برس 8 ہزار 800 سے زائد ریپ کی شکایات درج کرائی گئیں، ریپ ہونے والوں میں خواتین کے ساتھ بچے بھی تقریباً برابر تعداد میں شامل تھے۔ گزشتہ برس لندن میں 4 ہزار 300 بچوں کا ریپ ہوا یا ان پر جنسی حملہ کیا گیا، ریپ کے وکٹمز کی مدد کرنے والی چیریٹیز نے اس صورتحال کو خوفناک قرار دیا ہے۔
برطانوی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق ریپ کے حساس موضوع پر کام کرنے والی تنظیموں نے پولیس میں رپورٹ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کو اصل تصویر کا آدھا حصہ قرار دیا اور ریپ کے جرائم کی اصل تعداد رپورٹ ہو جانے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریپ وکٹمز میں شرم، احساسِ تذلیل اور انصاف نہ ملنے کے خوف جیسے کئی عوامل انہیں ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے سے روکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس دیگر نوعیت کے جنسی جرائم کی تقریباً 11 ہزار رپورٹس درج ہوئیں۔ ہر طرح کے جنسی جرائم کا نشانہ بننے والے ایک چوتھائی متاثرین کی عمر 18 برس سے کم تھی۔
اعداد و شمار سے پتہ چلا کہ 2018 سے 2023 تک جنسی جرائم 14 فیصدبڑھ کر 20 ہزار تک جا پہنچے ہیں۔
ریپ کرائسز کے مطابق ہر 6 ریپ وکٹمز میں سے ایک عورت زیادتی رپورٹ درج کراتی ہے اور ہر 5 ریپ وکٹم مردوں (عموماً بچوں) میں سے صرف ایک میل ریپ کی رپورٹ درج کراتا ہے جبکہ دیگر جنسی جرائم کے متاثرہ ہر 4افراد میں سے ایک شکایت کرتا ہے۔ یہ رجحان لندن جیسے ترقی یافتہ سمجھے جانے والے معاشرہ میں اب بھی وِکٹم شیمِنگ کی خوفناک شرح کی بالواسطہ نشان دہی کرتا ہے۔