تحریر،عامر رضا خان:قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے جس سرعت کے ساتھ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے الیکشن کمیشن کے خط پر ردعمل دیتے ہوئے نئی پارٹی پوزیشن دی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ طے شدہ پرگرام کے تحت ہی کیا جارہا ہے 8 ججز والے وضاحتی میزائل داغا جاتا ہے تو کبھی سپیکر کی جانب سے اینٹی میزائل خط لکھا جاتا ہے ، آئینی ترمیم کو لیکر یہ گولہ باری مسلسل جاری ہے اور تازہ ترین "ڈیزی کٹر بم" قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گرایا ہے جس میں اسمبلی کی نئی پارٹی پوزیشن بتائی گئی ہے۔ سپیکر کے الیکشن کمیشن کو خط کے بعد پارٹی پوزیشن میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے بعد قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کا وجود ختم ہوگیا ہے، جی ہاں تحریک انصاف جماعت اسلامی کی صف میں شامل ہوگئی ہے کہ اسمبلی میں اس کا نام نہیں ہوگا۔ نئی فہرست کے مطابق تمام 80 اراکین کو سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کر دیا گیا ہے، اس سے پہلے 39 اراکین تحریک انصاف اور 41 کو آزاد ڈکلئیر کیا گیا تھا لیکن نئے الیکشن ایکٹ کے بعد پارٹی پوزیشن بھی تبدیل کر دی گئی ہے اورتمام 80 اراکین کو سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کیا گیا ہے،ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی سے واپس لی جانے والی نشستوں کا بھی پارٹی پوزیشن میں ذکر کیا گیا ہے۔ نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 110، پیپلزپارٹی کی 69 نشستیں ہیں،ایم کیو ایم 22، ق لیگ 5، آئی پی پی کے 4 اراکین ہیں،مسلم لیگ ضیا، بی اے پی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں، سنی اتحاد کونسل 80، جے یو آئی ف 8، آزاد اراکین کی تعداد بھی 8 ہے،پی کے میپ، بی این پی مینگل اور ایم ڈبلیو ایم کی ایک ایک نشست ہے،ایک آزاد رکن قومی اسمبلی نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے،الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کی صورت میں 23 مخصوص نشستیں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو ملیں گی،مسلم لیگ ن 15، پیپلز پارٹی 5 اور جے یو آئی کو تین مخصوص نشستیں ملیں گی۔
لیں جی اب کیا ہوگا ایک جانب اپوزیشن ہے جو اپنے کپتان کی رہائی کے لیے مولانا فضل الرخمٰن کے کندھے پر بندوق رکھ کر مسلسل پارلیمنٹ کے استحقاق کو نشانہ بنا رہی ہے تو دوسری جانب حکومتی وزراء اور اتحادی جماعتوں کے افراد ہیں جو آئینی ترمیم کو عدالتی نظام کے لیے ضروری بتا رہے ہیں یہ گولہ باری ابھی جاری ہے اور شائد آنے والے مزید چند دنوں تک جاری رہے گی لیکن ایک بات تو طے ہے کہ پارلیمان جمہوریت میں آئین کو جنم دینے والی ماں ہوتی ہے جسے کوئی بھی ادارہ بائی پاس نہیں کرسکتا یا پارلیمان سے ہٹ کر کوئی ادارہ اپنا آئین جاری کرنے کا مجاز ہوتا ہے یہ استحقاق صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے اور اسی کے پاس رہنا چاہیے یہاں میں چند عظیم مفکرین سیاسیات و قانون کی کوٹیشنز لکھ رہا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ جو لوگ پارلیمان کا اختیار کسی شخصیت یا ادارے کو دینا چاہتے ہیں، وہ ملک میں جمہوریت نہیں مارشل لاء جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے مفکرین کیا کہتے ہیں پہلے یہ پڑھ لیں ۔
پارلیمنٹ اعلیٰ ادارہ ہے، اور اس کے فیصلوں پر عدلیہ کو سوال نہیں اٹھانا چاہیے (ونسٹن چرچل)
عدلیہ کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ کے جائز کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے (لارڈ ڈیننگ)
جمہوریت میں پارلیمنٹ اقتدار کا آخری ذریعہ ہے، اور اس کے فیصلوں کا احترام سب کو کرنا چاہیے، بشمول عدلیہ۔(ہیرولڈ لاسکی)
عدلیہ کی آزادی ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے برتر ہے(لارڈ ٹیمپل مین)
عدالتی فعالیت جمہوری عمل اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو نقصان پہنچا سکتی ہے(لارڈ ہوف مین)
عدلیہ کو پارلیمنٹ کے اختیارات غصب نہیں کرنے چاہئیں اور بینچ سے قوانین نہیں بنانے چاہئیں(جسٹس اینٹونن سکیلیا)
انگلش پارلیمنٹ ہمیشہ سے اعلیٰ اتھارٹی رہی ہے اور عدلیہ اس کے تابع رہی ہے، سر ایڈورڈ کوک (17ویں صدی)
1688کے شاندار انقلاب نے عدلیہ پر پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی (جان لاک 17ویں صدی)
ہندوستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی عدالتی جائزے کے تابع ہے لیکن آئین آخری اتھارٹی ہے(جسٹس وائی کے سبر وال سابق چیف جسٹس، ہندوستان)
پارلیمنٹ کی بالادستی یہی ہے کہ پارلیمنٹ کو عدالتی فیصلوں کو پلٹنے کا حق ہے، لیکن حکومتوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ وہ عدالتوں کے اہم کردار کو کمزور نہ کریں، جو احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ایک چیک اور بیلنس کے طور پر کام کرتی ہیں یہ پارلیمنٹ کی اتھارٹی اور عدلیہ کے احتسابی کردار کے درمیان نازک توازن کو اجاگر کرنے جیسا ہے۔
ضرورپڑھیں:عمران خان اکتوبر میں رہا ہوجائیں گے ، بڑی خبر آگئی
یہ بھی حقیقت ہے کہ آئین کی ماں پارلیمنٹ کو خود سپریم کورٹ بھی تسلی کرتی ہے سال 2010 میں جب اٹھارہویں ترمیم کو چیلنج کیا گیا تھا تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو بمقابلہ پاکستان کا ہے، مقدمے کے دوران تسلیم کیا گیا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے اور آئینی ترامیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ عدالت نے اس بات کو واضح کیا کہ آئین میں کی جانے والی ترامیم کا جائزہ تو لیا جا سکتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی قانون سازی کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ صاف ظاہر ہے یہ اختیار کوئی اور ادارہ اپنے پاس رکھ ہی نہیں سکتا ، پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کے مطابق، آئین اور پارلیمنٹ کی قانون سازی عدلیہ سے بالا نہیں، بلکہ عدلیہ آئین کے تحت کام کرنے کی پابند ہے۔"
معاملہ صاف ہے جسٹس (ر) ثاقب نثار ،جسٹس(ر) کھوسہ اور جسٹس(ر) عمر عطاء بندیال کے دور میں جو فیصلے "جج راج " کے تحت دئیے گئے اس کی درستگی کے لیے پارلیمنٹ سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے ۔