(ویب ڈیسک) موسیقی کے لئے وطن چھوڑنے والی عائشہ نے بتایا کہ انہیں اس لیے ملک چھوڑنا پڑا کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں اور میں ایک گلوکارہ ہوں۔
عائشہ 2018 میں افغان سٹار کے پلیٹ فارم پر منظر پر آئیں تھیں اور بہت مقبول ہو گئی تھیں۔ پچھلے دو سال سے کابل میں موسیقی کی تعلیم لے رہی تھیں اور ان کی انفرادیت لائیو سنگنگ ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنا وطن اس لیے نہیں چھوڑا کیونکہ میں ایسی مسلمان لڑکی ہوں جو حجاب نہیں لیتی اور خود کو مکمل طور پر ڈھانپتی نہیں ہے۔عائشہ نے بتایا کہ طالبان جب کابل کے اردگرد کے صوبوں تک پہنچ آئے تو میرے استاد نے مجھے کہا کہ عائشہ یہ وقت ہے کہ تم اس ملک سے نکل جاؤ۔
عائشہ کہتی ہیں کہ طالبان نے ہمیں اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے آج کل ایک افغان عورت ہونا مشکل ہے لیکن طالبان کے لیے ایک گلوکار ناقابل برداشت ہے۔
کمرے میں بچھے براؤن کارپٹ پر بیٹھی ہارمونیم کی دھن پر گاتے گاتے وہ لڑکی اچانک پھوٹ پھوٹ کر رو دی، مگر میرے پاس اسے دلاسہ دینے کے لیے کوئی جملہ نہیں تھا۔
انجان ملک اور انجان شہر کے اس گنجان آباد علاقے میں ایک کمرے کے فلیٹ میں عائشہ خان کئی ہفتوں سے تنہا رہنے پر مجبور ہیں۔ انھیں اپنا ملک اپنا شہر اور سب سے بڑھ کر اپنے ادھورے خواب چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی۔عائشہ نے مجھے کہا کہ میں موسیقی کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔میں نے دن رات سخت محنت کی ہے کیونکہ میں موسیقی سے محبت کرتی ہوں۔ میں اسے نہیں چھوڑ سکتی۔
وہ کہنے لگیں ’میرے لیے موسیقی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے آپ اظہار کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں، آپ کا کلچر کیا ہے اور بطور عورت اپنے جذبات کا اظہار بول کر کرنا کہ ہم کیسا محسوس کرتی ہیں واقعی بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر موسیقی کے ذریعے ہم یہ کر سکتی ہیں کیونکہ ہر کوئی موسیقی سے محبت کرتا ہے۔‘
مستقبل کے حوالے سے اندیشے اور بے یقینی کے باوجود عائشہ نے موسیقی جاری رکھنے اور ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
عائشہ نے بتایا کہ ’میرے پاس پاسپورٹ تھا لیکن ان حالات میں ملک چھوڑنا اتنا آسان نہیں تھا کابل سے ہمسایہ ممالک کی سرحدوں تک سفر بہت کھٹن تھا۔ میں نے ایک بیگ میں چند کپڑے ڈالے اور اپنے فلیٹ سے نکل آئی۔
’میری پیاری دوست میری روم میٹ جو میرے ساتھ برسوں سے تھی اب وہ اور میں ایک الگ الگ منزل کی جانب جا رہے تھے۔موسیقی کی خاطر اس سے پہلے عائشہ کو اپنے خاندان سے بھی الگ ہونا پڑا تھا۔وہ اس بارے میں بہت تفصیل میں تو نہیں جاتیں لیکن کہتی ہیں کہ پہلے گھر اور پھر ملک چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ میں قانون کی طالبہ تھی والد نے ہمیں اچھے سکول اور کالج میں داخل کروایا لیکن وہ مجھے قانون دان بنانا چاہتے تھے، جس میں میری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے موسیقی کا کریئر کے طور پر انتخاب کرنے میں بہت مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کیا۔عائشہ نے بتایا کہ یہ میرے جیسے موسیقی کو کریئر بنانے والوں کے لیے بہت مشکل تھا۔
’سکول کالج میں تو نعت خوانی میں میرا نام سرفہرست ہوتا تھا اور ٹیچرز بھی بہت حوصلہ افزائی کرتی تھیں لیکن گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا کہ میں موسیقی کی جانب جا سکتی، میرا تعلق ایک قدامت پسند مذہبی گھرانے سے ہے جہاں موسیقی اور اس قسم کے شوق کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔