(قیصر کھوکھر) سابق ڈی جی ایکسائزاکرم اشرف گوندل کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پنجاب کی بیوروکریسی انتہائی چوکنا ہو گئی ہے اور فائل ورک پر کام پھونک پھونک کر کرنا شروع کر دیا ہے اور فائل پر منظوری سوچ سمجھ کر دینا شروع کر دی ہے۔
اس گرفتاری سے ایوان وزیراعلیٰ کی بیورو کریسی پر گرفت کمزور ہوئی ہے اور اب بیورو کریسی کیلئے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے آزادانہ رائے کے ساتھ فائل ورک کرنا شروع کر دے۔ اس سے قبل یہ روایت عام تھی کہ ایوان وزیراعلیٰ پنجاب سول سیکرٹریٹ کے تمام محکموں میں بے جا مداخلت کرتا تھا اور سول سیکرٹریٹ کے محکموں کے افسران سے اپنی من پسند سمریاں تیار کراتا تھا اور حتیٰ کہ کئی افسران اپنے طور پر ایوان وزیراعلیٰ فون کر کے گائیڈ لائن لیتے تھے کہ بتایا جائے کس کس کا کیا کیا فیصلہ کیا جائے اور کیا اور کیسی سمری تیار کر کے ارسال کی جائے۔
سابق ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف گوندل کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پنجاب کی افسر شاہی کو ایک موقع مل گیا ہے کہ وہ میرٹ پر کام کریں اور اپنے سیاسی آقائوں کو خوش کرنے کے بجائے عوام کی خدمات کو اپنا شعار بنائیں۔ کیونکہ اکرم اشرف گوندل کے کیس میں نیب نے حکم دینے والے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کو دوبارہ اس کیس میں طلب نہیں کیا اور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کیس اب صرف اکرم اشرف گوندل پر ہی چلے گا، ماضی کے حکمران بیورو کریسی کو اپنے من پسند کاموں اور اپنے ذاتی کام کروانے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں اور سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم فواد حسن فواد اور سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد خان چیمہ ابھی تک اسی وجہ سے نیب کے کیس کا سامنا کر رہے ہیں اور احد خان چیمہ ابھی تک جیل میں ہیں جبکہ اس وقت کے حکمران باہر آزادانہ گھوم رہے ہیں۔
قائداعظم اپنے بیورو کریسی سے خطاب میں بیورو کریسی کو ملک و قوم کے مفاد میں کام کرنے کی نصیحت کر چکے ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے بھی گریڈ 20 کے افسر محمد ارشد رانا کیخلاف زمین کی مبینہ غیر قانونی آلاٹ منٹ اور مبینہ کرپشن کے ایک سکینڈل کی ایف آئی آر درج کر رکھی ہے اور نیب کے ہاتھوں سابق ڈی جی سپورٹس محمد عثمان انور جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور اب لاہور ہائیکورٹ نے ڈی ایم جی افسر محمد عثمان انور کا نیب کا کرپشن کا کیس ختم کر دیا ہے۔
نیب اگر بیورو کریسی کے حوالے سے تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرے تو پنجاب کے کئی بڑے بڑے بیورو کریٹ اس کے شکنجے میں آ سکے ہیں گریڈ20 کے افسر کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے سے دو لاکھ روپے کے درمیان ہے لیکن کئی ڈی ایم جی افسران کے بچے یورپ اور امریکہ کے مہنگے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں کی ماہانہ فیس ان افسران کی آمدن سے کہیں زیادہ ہے اور یہ سارے خرچے کہاں سے پورے کئے جا رہے ہیں۔
یقینا قومی خزانے کو لوٹ کر ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ نیب کو سیاستدانوں کے بجائے افسر شاہی کو گھیرائو کرنا چاہئے اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریوں سے تمام افسران کے اثاثے طلب کرنا چاہئے اور ساتھ ساتھ ان افسران کے ذرائع آمدن کیا کیا ہیں اور اخراجات کیا کیا ہیں اور ان کے بچے کہاں پڑھ رہے ہیں تاکہ کرپشن کرنیوالے بیورو کریٹ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔
پنجاب میں جونیئر بیورو کریسی میں کرپشن کی شرح زیادہ ہے اور تحصیل اور ضلع کی سطح کی انتظامیہ بغیر پیسے لئے کوئی کام نہیں کرتی ہے۔ کئی محکموں میں تو فائل بغیر کرپشن کے حرکت نہیں کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب کو بھی الرٹ ہونا چاہئے اور افسران کو بھی میرٹ پر کام کرنا چاہئے تاکہ ملک ترقی کرے اور کوئی نیا اکرم اشرف گوندل پیدا نہ ہو سکے۔