ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

26 ویں آئینی ترامیم کی منظوری؛ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری

26 ویں آئینی ترامیم کی منظوری؛ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 : آئین میں 26 ترمیم منظور کروانے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع گیا ۔ 

 قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہو گیا ۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآنِ پاک سے کیا گیا، جس کے بعد قومی ترانہ بھی بجایا گیا ۔ 

قبل ازیں 26 ویں آئینی ترامیم میں شامل کردہ تمام آرٹیکلز سینٹ میں منظور ہوگئے ۔ 

اجلاس کے آغاز میں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپیکر سے اجازت طلب کی، کہ سینٹ سے منظور ہوچکی 26 ویں آئینی ترامیم کے ڈرافٹ کو منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے ۔ سپیکر ایاز صادق نے وزیر قانون کو ہدایت کی کہ وہ مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے سیلینٹ فیچر پیش کریں ۔ 

اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کردی۔ 

سپیکر کی ہدایت پر اعظم نذیر تارڑ نے ماضی کے کئی واقعات کا حوالہ دیا، جن میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کو عدالتوں میں بعض ججوں نے مسترد کیا، اور پارلیمنٹ پر اپنی مرضی کو مسلط کیا ۔ وزیرقانون نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے بلاول بھٹو اور دیگر حکومتی زعما نے 26 ویں آئینی ترامیم کا کام چھیڑا ۔ انہوں نے کہا کہ 2006 میں تاریخ ساز معاہدہ ہوا، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک میثاق پر دستخط کیے، میثاق جمہوریت کے کافی نکات پر عملدرآمد ہو گیا، میثاق جمہوریت میں سب سے اہم ایجنڈا آئینی عدالت کا تھا۔ 

وزیر قانون نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں ججز تقریری کے عمل میں بنیادی تبدیلی کی گئی تھی،  19 ویں ترمیم بازو دبا کر اس ایوان سے منظور کروائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا عدلیہ کا رینکنگ میں جو نمبر ہے وہ بتانے کے لائق نہیں۔ یثاق جمہیوریت کے بہت سے نکات پر عملدرآمد ہوگا۔ آج 26 ویں آئینی ترمیم سینیٹ نے 2 تہائی سے منظور کی ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے ، 6 اور 7 سال والے چیف جسٹس آئے تو آپ نے دیکھا کیا ہوا ، سینئر موسٹ تین ججز کے  پینل سے پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے لئے نامزدگی گی۔ 

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کچھ ترامیم جے یو آئی (ف) کی طرف سے پیش کی گئیں، وہ اس بل کا حصہ بنیں ۔ وفاق میں ایڈوائزرز کو ایوان میں آکر سوالوں کے جواب دینے کی اجازت ہے ، چار پارلیمنٹیرینز کمیشن کے ممبرز بنائے گئے ہیں، یہی جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز کے ججز کی تعیناتی بھی  کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل ہر ادارے میں ہونا چاہئے، جو کام نہیں کرتا وہ گھر جائے ۔ 

وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے اتفاق رائے پانچ شقوں پر کیا ہے، پانچ شقیں جمعیت علمائے اسلام کی ہیں ، آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچز کا قیام عمل میں لا رہے ہیں۔ سوموٹو سے لے کر چیف جسٹس کے تقرر تک کا تعین ترمیم میں کیا گیا، جوڈیشل کونسل کے اختیارات کو بہتر کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا شکرگزار ہوں انہوں نے بہت محنت کی ہے، شکر گزار ہوں مولانا فضل الرحمان کا ہمارے بزرگ سیاستدان ہیں۔ 

 بلاول بھٹو زرداری کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

 بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتےہوئے کہا کہ وزیر قانون کے جو الفاظ ہیں ان نا شکر گزار ہوں ، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے، جتنا ہمارا آپس میں تبادلہ خیال ہوا اس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست میں اپنے والد صدر آصف زرداری کے بعد اگر کسی کو بڑا مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں، بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمان کی ہے ، مولانا فضل الرحمان کا جو کردار اس عمل میں رہا ہے یہ تاریخ یاد رکھے گی، جتنی ہم نے پارلیمان کی عزت رکھی ہے اس میں بھی سب سے بڑا کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا آئین ہے پاکستان کا دستور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کےلیے آج جتنا اسپیس ہے اتناماضی میں نہیں رہا،  جتنا اتفاق رائے پیدا ہوسکتا تھا اُاتنا حاصل کیا ہے۔ 1973 کے آئین کے وقت جے یو آئی اور پیپلز پارٹی ان بینچوں پر بیٹھی تھی، جب پاکستان کی بات آتی تھی تو سارے اختلاف بھول کر ایک میز پر بیٹھ کر آئین دلوایا تھا، ہمارے آئین میں تمام کالے قوانین کو ہم نے اپنے آئین سے نکلوا دیا، انہوں نے کہا کہ سیاست دان کا امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ جتنا اسپیس ملتا ہے اس اسپیس پر کتنا کھیل سکتے ہو  ۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے وقت اس دور کے حالات کے مطابق کام کیا، آج کے دور کا اپنا سیاسی اسپیس ہے، جتنا اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا وہ ہم نے حاصل کرکے 26 ویں ترمیم کی شکل میں پاس کرنے جارہے ہیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ پاکستان کیے نظام عدل سے مطمئن ہیں یا نہیں، پاکستان کے عوام کیا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے عدالت کا نظام چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چلے؟ ۔  انہوں نے کہا کہ ہماری عدالت کام تھا جمہوریت کا تحفظ آئین کا تحفظ کرنا، ہماری عدالت کا کام تھا آمر کو روکنا، کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اپوزیشن کے دوست کالا سانپ کالا سانپ کی بات کر رہے ہیں، ان کی نظر میں اس آئینی ترمیم میں کوئی ایسی شق تھی جسے نکالا گیا، کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے ۔  جنرل مشرف نے وردی میں الیکشن لڑا تو اجازات عدالت نے دی ، ججز آئین اور جمہوریت کو تحفظ دینے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے۔ ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلہہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا ۔ 

 انہوں نے کہا کہ آمریت کی کامیابی میں صف اول کا کردار عدالت کارہا ہے ، ہم آمر کو بھگاتے ہیں تو عدلیہ کو جمہوریت اور آئین یادآجاتا ہے، عدلیہ اپنا اختیار وزرائے اعظم کو فارغ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ  قائداعظم نے گول میز کانفرنس میں آئینی عدالت کی تجویز دی،  قائداعظم کو ملک کو آئین دینے کا موقع نہیں ملا ۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ چیف جسٹس کی عدالت نے جو انصاف دلوایا وہ جسٹس دراب پٹیل نے اپنے آرڈر میں لکھا تھا، جسٹس دراب پٹیل کو چیف جسٹس بننا تھا اس کے درمیان پی سی او جج تھے، جسٹس دراب پٹیل  کے لیے کرسی کی اہمیت ہوتی تو پی سی او جج بنتے، جسٹس دراب پٹیل  نے چیف جسٹس کی کرسی کو لات مار کر استعفی دے دیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں آئینی عدالت بنانے کا وعدہ کیا، 2024 میں بھی آئینی عدالت میرے منشور کا حصہ ہے ۔ سیاست میں ضد نہیں ہوتی، اگر ہم اپنی ضد پر قائم رہیں تو کامیابی مشکل ہوگی۔ 

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے چمپئن افتخار چودھری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم باہر پھنک دوں گا۔  افتخار چودھری کی دھمکی میں آکر 18 ویں ترمیم کی گئی،  یہ عدالت کالا سانپ بن کر 18 ویں ترمیم کے گرد گھوم رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئینی بینچ بنانے جارہے ہیں، جب سینیٹ بنائی تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پارلیمان پر پارلیمان بنا رہے ہو ، یہ سمجھتے ہیں یہ پاور ہم ان سے چھین رہے ہیں، یہ پاور انہوں نے ہم سے چھینا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت ہو یا آئینی بنچ عوام کا کام ہونے جارہا ہے،  وفاقی عدالت کو تمام صوبوں میں برابر کی نمائندگی دے رہے ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جج جج کو لگائے ، اور جج جج کو ہٹائے،  کہتے ہیں سیاست دان کون ہوتا ہے ، ہم منتخب نمائندے ہیں۔ جج لگانے کا اختیار وزیراعظم سے چھین کر چیف جسٹس کو دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خوف تھا خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو جج تعینات کرے گی تو نظام تباہ ہوجائے گا۔ جب ایک امر ججز تعینات کررہا تھا تو کیا اس کا راستہ کسی نے روکا ؟،  ہم نے ججز کو عادت لگائی تھی کہ چیف تیرے جان نثار بے شمار بے شمار ۔  پاکستان کے عدالتی نظام کا دنیا میں مذاق بن گیا ہے۔  عدلیہ وزیر خارجہ طے کرسکتی ہے، ڈیم بنا سکتی ہے،  پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی ؟،  یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کا کیا کام ہے۔  کسی نہ کسی وقت ہم نے یہ دروازہ بند کرنا تھا ، ہم یہ دروازہ بند کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو تعدا ہے کیسز کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس سے زیادہ تعداد ہے ہائی کورٹس میں۔ چئیرمین پی پی نے کہا کہ اس آئینی ترمیم میں کچھ ایسی چقیں ہیں جو 100 فیصد اتفاق رائے سے پاس ہوئے ہیں، آئینی ترمیم ہونے جا رہے ہیں اور اس میں ایک انقلابی کام ہونے جا رہا ہے، آئینی اصلاحات میں جے یو آئی نے جو تجویز دی اس کو ویلکم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اس سارے عمل میں جو محنت سیاسی جماعتوں نے کی ان کا شکر گزار ہوں ، مولانا فضل الرحمان کا شنر گزار ہوں ، نواز شریف کا شکر گزار ہوں ، دل سے کہہ رہا ہوں پاکستان تحریک انصاف کا شکر گزار ہوں ، ہم آپ کی سیاسی مشکلات کا احساس کرتے ہیں ، جتنا آپ کے پاس اسپیس تھا اتنا آپ حصہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی جماعت کے بغیر تو یہ کام ہو ہی نہیں سکتا تھا، تاریخی کام میں آپ کا کردار ہے۔ اس سیاسی صورتحال میں یہ سیاسی کارنامہ ہے ۔