ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

26 ویں آئینی ترامیم میں شامل کردہ آرٹیکلز سینٹ میں منظور

26 ویں آئینی ترامیم میں شامل کردہ آرٹیکلز سینٹ میں منظور
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 :  26 ویں آئینی ترامیم میں شامل کیے گئے آرٹیکلز کو منظوری کیلئے سینٹ میں پیش کردیا گیا۔ 

26 ویں آئینی ترامیم میں شامل کیے گئے آرٹیکلز کو سینٹ میں پیش کردیا گیا ۔  سینٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی منظوری دیدی، 65اراکین نے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ 

آرٹیکل38

آرٹیکل38 میں ترمیم منظوری کیلئے سینٹ میں پیش کردی گئی، ترمیم جے یو آئی ایف کے کامران مرتضیٰ نے پیش کی ،  حکومت نے جے یو آئی ف کی ترمیم کی حمایت کی۔ ترمیم کے مطابق آرٹیکل 38 کے پیراگراف ایف میں ترمیم کے مطابق سودی نظام کاخاتمہ جتناجلدی ممکن ہوکیاجائے گا۔  آرٹیکل 38میں ترمیم سینیٹ سے ہوگئی۔ 

 آرٹیکل 48

 آرٹیکل 48میں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، جس کے مطابق وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانیوالی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹریبونل اورکوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی. سینیٹ سے آرٹیکل 48میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئی ۔ 

آرٹیکل 81

آرٹیکل 81میں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 81میں آ رٹیکل 81میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل شامل کردیئے گئے۔  سینیٹ سے آرٹیکل 81میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کی گئی ۔ اس کے علاوہ  آرٹیکل 175اے سینیٹ سے کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔

آرٹیکل 175A

آرٹیکل 175Aمیں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، آرٹیکل 175Aمیں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ ججز تقرری کیلئے کمیشن کاقیام عمل میں لایاجائے گا، ججز تقرری سے متعلق کمیشن 13ممبران پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کے سربراہ ہوں گے،  چارسنیئرججز وفاقی وزیرقانون اٹارنی جنرل اور سنیئروکیل پاکستان بارکونسل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ کمیشن میں دواراکین اسمبلی اور دواراکین سینٹ شامل ہوں گے جو حکومت اوراپوزیشن سے لئے جائیں گے، قومی اسمبلی اورسینٹ کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈرممبران کونامزدکریں گے۔

آرٹیکل 175 اے کی شق3اے کے تحت 12ممبران پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی،  خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے8جبکہ سینیٹ سے چار اراکین کو لیا جائے گا، قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام ممبران سینیٹ سے ہوں گے،  خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی ہوگی۔  پارلیمانی لیڈر خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں ممبران اسپیکر قور چیئرمین سینیٹ کو دینے کے مجاز ہوگی ، اسپیکر قومی اسمبلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جا ری کرینگے ۔ 

ترمیم کے تحت چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے 14روز قبل سنیارٹی لسٹ فراہم کرنے کے پابند ہونگے، چیف جسٹس آف پاکستان خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو سنئیر ترین ججز کے نام بھجوائیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی تین ناموں میں سے ایک کاانتخاب کرکے وزیراعظم کو ارسال کرے گی، وزیراعظم چیف جسٹس کی تقرری کیلئے نام صدرکو ارسال کریں گے۔  سنیارٹی لسٹ میں موجود نامز د ججز کے انکار پر پارلیمانی کمیٹی اگلے سنیئر ترین جج کے نام پر غور کریگی۔  پارلیمانی کمیٹی نامزدگیوں پر اس وقت تک جائزہ لیگی جب تک چیف جسٹس کا تقرر نہ ہوجائے۔  26ویں آئینی ترمیم کے منظوری کے بعد چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل نام پارلیمانی کمیٹی کو بجھوانے نے پابند ہونگے ۔

ترمیم کے مطابق  خصوصی پارلیمانی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا ۔قومی اسمبلی تحلیل ہوجانے کی صورت میں 2اراکین سینٹ سے لئے جائیں گے۔ آرٹیکل 68کا اطلاق چیف جسٹس تقرری سے متعلق قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی پروسیڈنگ پر نہیں ہوگا۔  سپریم جودیشل کمیشن کو ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ بنیاد وں پر کارگردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہوگا ۔   ہائی کورٹ جج کی تقرری غیر تسلی بخش ہونے پر کمیشن جج کو کارگردگی بہتر بنانے ٹائم فریم دیگا ۔  دی گئی ٹائم فریم میں جج کی کارگردگی دوبارہ غیر تسلی بخش ہونے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بجھوائی جائیگی ۔  چیف جسٹس سپریم کورٹ ، چیف جسٹس ہائی کورٹس یا کمیشن میں موجود ججز کی غیر تسلی بخش کارگردگی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی ۔  سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے جج کو مذکورہ ترمیم کے تحت ہٹایا جا سکے گا ۔  کونسل جسمانی یا ذہنی معذوری ،غلط برتاو، اور دفتری امور بہتر انجام نہ دینے پر کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی درخواست پر انکوائری کریگا ۔  سپریم جوڈیشل کونسل بنا تاخیر کے6ماہ کے اندرمتعلقہ ججز سے متعلق انکوائری مکمل کرنے کا پابندی ہوگا ۔ 
جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں فرائض کی انجام دہی میں قاصر ، بد تمیزی یا غیر تسلی بخش کاگردگی کے مرتکب ہونے کا صدر مملکت کو کاروائی کا اختیار ہوگا۔ صدر مملکت جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی بھی جج عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہوگا ۔   ججز تقرری سے متعلق کمیشن کا اجلاس ایک تہائی ممبران کی درخواست پر بلایاجاسکے گا۔ چیئرمین کمیشن کسی بھی درخواست پر پندرہ دن کے اندرکمیشن کا اجلاس بلانے کا پابند ہوگا۔ 

  آرٹیکل 177

 آرٹیکل 177میں ترمیم سینیٹ میں پیش کی گئی، جسے  منظور کرلیا گیا۔  آرٹیکل177میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا ،  آرٹیکل177میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کاجج بننے کیلئے ہائی کورٹ میں بطورجج پانچ سال کام کرنے کی حدمقرر کی گئی،  کسی بھی وکیل کا سپریم کورٹ جج بننے کیلئے بطور وکیل 15سال کی پریکٹس لازم ہوگی۔

 آرٹیکل179

 آرٹیکل179میں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، آرٹیکل179کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر تین سال کیلئے ہوگا،چیف جسٹس آف پاکستان 65سال کی عمرمیں ریٹائرڈ ہوں گے۔  آرٹیکل 179میں ترمیم بھی منظور کرلی گئی ۔ 

 آرٹیکل184

 آرٹیکل184 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ کا ازخودنوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا،  آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورااز خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دیگا ۔  آرٹیکل 184 میں ترمیم منظور کرلی گئی۔

آرٹیکل 185

 آرٹیکل184 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا،  پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی دو تہائی اکثریت سے کریگی، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا ۔ 

آرٹیکل کے تحت چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائےگی، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے ۔ 

 آرٹیکل 186

 آرٹیکل 186 اے منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کردیا گیا، جس کے تحت ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50ہز ار سے بڑھا کر10لاکھ کر دی گئی ۔ آرٹیکل 186میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ 

 آرٹیکل187

 آرٹیکل187منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کردی گئی،  آرٹیکل187کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروری کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائیگا ۔ آرٹیکل 187 اضافی ترامیم کے ساتھ منظور کرلی گئی ۔ 

 آ رٹیکل 191اے

 آئین میں آ رٹیکل 191اے شامل کرنے کی ترمیم منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کردی گئی،  آرٹیکل191کے تحت آئینی بنچز کی تشکیل عمل میں لائی جائیگی، سپریم کورٹ میں ایک سے زیا دہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکے گی،  سپریم جوڈیشل کونسل آئینی بنچز کے ججز اور انکی مدت کا تعین کرے گی، آئینی بنچز میں تمام صوبوں کے ججز کی مساوی نمائندگی ہو گی ۔ اس شق کے تحت کوئی حکم سپریم کورٹ کے زیراختیار اوراستعمال کردہ کسی دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ منظور نہیں کیاجائے گا، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کاکوئی بنچ درج ذیل دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا، آئینی بنچ کم سے کم پانچ ججز سے کم ججز پر مشتمل ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سنیئر ججز آئینی بینچزکی تشکیل دینگے ۔

ترمیم کے تحت زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات ، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بنچز کو منتقل کیے جائیں گے ۔ آرٹیکل 199اے میں ترمیم سینیٹ  سے منظور کرلی گئی۔ 

آرٹیکل193

آرٹیکل193میں ترمیم منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کی گئی، جس کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص ہائی کورٹ کاجج  نہیں بن سکتا،  آئینی ترمیم میں ہائی کورٹ جج کیلئے40سال عمر، 10 سال تجربے کی حد مقرر کردی گئی ہے ۔ آرٹیکل 193 میں ترمیم سینیٹ سے منظور کرلی گئی ۔ 

آرٹیکل 199

آرٹیکل 199میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کردی گئی، جس کے تحت ہائی کورٹ دائر درخواست کے مندرجات سے باہر ازخود کوئی حکم یا ہدایت کا اختیار نہیں ہوگا ۔ آرٹیکل 199میں ترمیم سینیٹ سے منظور کرلی گئی ۔ 

 آرٹیکل209

 آرٹیکل209میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کردی گئی ،  آرٹیکل209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا،  سپریم جوڈیشل کونسل 5ممبران پر مشتمل ہوگی ۔  چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراء ہونگے، جبکہ  سپریم کورٹ کے دو سنیئر جج،اور ہائی کورٹس کے دو سنیئر ججز کونسل کا حصہ ہونگے ۔ آرٹیکل 209میں ترمیم سینیٹ سے منظور کرلی گئی ۔ 

 آرٹیکل215

 آرٹیکل215میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ممبراپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور ممبر کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہونگے ۔ آرٹیکل 215میں ترمیم سینیٹ  سے منظور کرلی گئی ۔ 

آرٹیکل 229 اور 230

آرٹیکل 229 اور 230 میں جمیعت علمائے اسلام ف کی ترامیم منظور کرلی گئی ۔ ترنیم کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یا صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے کی جائے گی ۔ 

 آرٹیکل255 

 آئین کے آرٹیکل255 میں ترمیم منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کی گئی، جس کے تحت  کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانانا قابل عمل ہونے پر ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حلف لینے کے مجاز ہونگے۔آرٹیکل 255میں ترمیم سینیٹ  سے منظور کرلی گئی ۔