سٹی42: سینیٹ آف پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
آج اتوار کی شامل سینیٹ آف پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کر دیا گیا تھا۔ سینیٹ کے چئیرمین کی اجازت سے شام سات بج کر بائیس منٹ پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ کروانے کی قرار داد پیش کی جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ عدلیہ میں ضروری اصلاحات کے لئے اہم آئینی ترامیم پر مشتمل 26 ویں آئینی ترمیم کے پیکیج پر شق وار ووٹنگ کا عمل شب 8 بج کر 20 منٹ پر مکمل ہو گیا اور بل کی تمام شقیں دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئیں۔ حکومت کے پاس اس ترمیم کو منظور کروانے کے لئے دو تہائی اکثریت سے کئی ووٹ زیادہ موجود تھے جنہیں استعمال نہیں کیا گیا۔
اس کے فوراً بعد چئیرمین یوسف رضا گیلانی نے ہدایت کی کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ کروانے کے عمل کے متعلق ہدایات جاری کیں۔ اب سینیٹ میں آئینی ترامیم کے پیکیج کی رسمی منظوری کے لئے ووٹ کیا جا رہا ہے اور دو تہائی سے ایک رکن زیادہ ایوان میں موجود ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے ارکان سینیٹ کے اجلاس سے جا چکے ہیں۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے مسودہ پر شق وار ووٹنگ کروانے سے پہلے چئیرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ کی ویزٹرز گیلری اور لابیاں خالی کروا دیں۔ پریس گیلری کو بھی سینیٹ کی انتظامیہ نے خالی کروا دیا۔ بعد ازاں طریقہ کار کے مطابق دو منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں، اس کے بعد آئینی ترمیم کے حق مین اور مخالف میں ووٹ دینے کے خواہشمند ارکان کو دو الگ لابیوں میں جانے کے لئے کہا گیا اور ان کو شمار کیا گیا۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی نے ووٹنگ کے نتیجہ کا اعلان کیا ، چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں 65 اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے۔
ایوان میں حکومت کے پیش کردہ بل کے حق میں ووٹ دینے والے 65 ارکان شمار ہوئے ہیں جن میں چئیرمین یوسف رضا گیانی شامل نہیں ہیں۔
بل کی پہلی شق کی مخالفت میں صرف چار ووٹ آئے، مخالفت میں ووٹ دینے والے چار سینئٹرز نے ایوان سے واک آوٹ کر دیا۔
پی ٹی آئی کے ارکان سینیٹ سے چلے گئے
چئیرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی اس وقت بل کو شق وار پیش کر کے اسے شق وار منظور کرنے کے عمل کا آغاز کروایا تو پی ٹی آئی کے چار ارکان سینیٹ میں موجود تھے۔ پی ٹی آئی کے چار سینیٹرز نے 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودہ کی پہلی کلاز کی ووٹنگ میں حسہ لیا اور اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اس کے بعد وہ ایوان سے اٹھ کر چلے گیے۔ بل کی باقی تمام شقیں ایوان میں موجود تمام ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیں۔ کسی شق کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔
اس سے پہلے اپوزیشن کے مطالبہ پر رانا ثنا اللہ، اٹارنی جنرل اور سپیکر کو ایوان سے جانے کے لئے کہا گیا تھا۔
آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل جاری ہے، بل پر شق وار ووٹوں کی گنتی وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی کر رہے ہیں.
جے یوآئی کی جانب سے ترامیم سینیٹر کامران مرتضی نے پیش کیں، جے یوآئی کی ترامیم متفقہ طور منظورکرلی گئیں۔
اس سے پہلے
پارلیمنٹ ہاؤس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے سینیٹ کے اہم اجلاس کا آغاز ہوا تو چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی چیئرمین موجود تھے ۔ وزیرداخلہ محسن نقوی، نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی سینیٹ کے اس اہم اجلاس میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سینیٹ اجلاس میں سینیٹرز کی بڑی تعداد شریک ہے، پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر اور عون عباس بھی ایوان میں موجود ہیں۔ بی این پی کے ممبران بھی ایوان میں آگئے، قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان بھی ایوان میں آگئے۔
سینیٹ اجلاس کے دوران اجلاس میں حکومتی بینچز پر 47 ارکان موجود تھے۔ حکومت کو سینیٹ میں ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت چاہیے اور اسے 64 ووٹ درکار تھے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا اجلاس سے خطاب
سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چئیرمین سے اجازت طلب کی اور کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پیش کرنا چاہتا ہوں، آئینی ترمیمی بل کو ضمنی ایجنڈا پر زیرغور لایا جائے، چیئرمین سینیٹ سے درخواست ہے کہ ترامیم کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایوان میں پیش کیا جائے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر پہلے بات ہوئی جس کے نتیجہ میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی، کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتیں تھیں، اپوزیشن سے بھی بات کی۔ جے یو آئی کی مشاورت سے مسودے پر اتحادی جماعتوں کا اتفاق رائے ہوا۔
اعظم نذیر تارڑ کے بعد علی ظفر ایڈووکیٹ، سینیٹر شیری رحمان، ایمل ولی خان، سینیٹر مولانا عطاء الرحمن، سینیٹر فیصل سبزواری اور سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے 26 ویں آئینی ترمیم پر اظہار خیال کیا ۔
سینیٹر علی ظفر کا سینٹ میں اظہارِ خیال
پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قوم کی رضا مندی سے نہ بننے والا آئین ملک وقوم نقصان پہنچاتا ہے ، آئینی ترمیم کے لیےاتفاق رائے ضروری ہے ، جس طرح آئینی ترمیم کا عمل ہورہا ہے وہ جرم ہے اور آئین کے خلاف ہے، آئین میں ترمیم لوگوں کی رضا مندی سے ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کے بیوی بچوں اور بھائیوں کو اغواء کرکے ووٹ لینے کا عمل اتفاق رائے نہیں ہے ، آج بھی ہمارے ساتھی اغواء ہیں جو یہاں آکر ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ ہماری پارلیمانی کمیٹی میں طے ہوا تھا کہ ہم کسی آئینی ترمیم کو سپورٹ نہیں کریں گے ، 1956 کے آئین میں قوم کو اتفاق رائے نہیں تھا ، 1962 کے آئین قوم کا اتفاق رائے نہیں تھا جو اپنی موت مر گیا ، 1962 کا آئین ملسط کیا تھا اسی لیے 8 سال میں ختم ہوگیا، اس کے بعد مارشل لاء لگ گیا۔ انہوں نے کہاکہ آئین لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے جدا نہیں کرتا ، جس آئین پر اتفاق رائے نہیں ہوتا وہ آئین مر جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ دو حکومتیں آئین کے آرٹیکل 58 کا شکار ہوئی ہیں ، ہمارے ساتھی گرفتاری کے خوف کی وجہ سے نہیں آئے ، آئینی ترمیم کے لیے لوگوں کو زدو کوب کرکے ووٹ دینے کا عمل ہے لوگوں کی رضا مندی شامل نہیں ، یہ عمل آئین اور جمہوریت کے خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ساتھی ابھی آئیں گے جن سے شاید ووٹ لیا جائے، اس طرح جو ترمیم ہورہی ہے وہ میرے خیال میں جرم ہے۔
پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ آرٹیکل 58/2بی کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں گئیں، ایک آمرانہ ترمیم کی وجہ سے نقصان ہوا اور مارشل لاء آیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہو سکتا ہے یہ بل پاس بھی کروالیں۔ چئیرمین سنیٹ ہمارے ارکان کے ووٹ شامل نہ کریں ۔
جب آئینی ترمیم کا معاملہ شروع ہوا تو 80 سے زائد ترمیم تھیں ، اولین مسودے میں من پسند ججوں کی من پسند آئینی عدالت بنائی جارہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اولین مسودے کا راستہ روکا ، ہمیں خوشی ہوئی کہ ایک اور پارٹی بھی آئین اور قانون کے لیے کھڑی ہوئی ۔ ہم اس پراسس کا حصہ نہیں تھے ہم نے ایک کلاز بھی نہیں دیا ، ہم صرف معاملات دیکھنے کے لیے اس عمل کا حصہ بنے ۔
سینیٹر شیری رحمان کا ایوان میں اظہارِ خیال
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئیر لیڈر سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، آپ خود بتائیں کہ کیا پاکستان کا جوڈیشل سسٹم ٹوٹا ہوا نہیں ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہم قربانیاں دے دے کر یہاں پہنچتے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم میں مجھے کوئی ’ناگ‘ نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی جو صورتحال ہے، آپ نے اسے جوڑنا ہے یا تقسیم کرنا ہے، آپ نے اسے توڑنا ہے یا تعمیر کرنا ہے۔کالے ناگ کے سامنے بین نہیں بجاتے ، اسے اسی وقت ختم کرتے ہیں ۔ لیڈر شپ چئیرمین بلاول بھٹو نے دکھائی ہے۔ کوئی سیاسی خلا انہوں نے نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو یہ سینیٹ وجود میں آئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ اب کوئی صوبہ یہ نہ کہے کہ ہمارے حقوق سلب ہو رہے ہیں،( اس سینیٹ مین تمام صوبوں کی برابر نمائدگی ہے)۔
شیری رحمان نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی، وہاں آ کر آپ اپنی تمام معروضات پیش کرتے، پارلیمانی کمیٹی کے دس اجلاس ہوئے اپوزیشن نے کوئی نکات پیش نہیں کئے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کو دیکھیں کہ اس میں خواتین اور سول سوسائٹی کی نمائندگی دی گئی ہے، یہ معاشرہ کے تمام طبقوں کو شامل کرنے کی بات ہے، اس میں کون سا کالا ناگ ہے بھائی۔
شیری رحمان نے کہا کہ سب نے اس ترمیم کیلئے بہت محنت کی ہے خاص طور سے چئیرمین بلاول اور وزیر اعظم شہباز شریف صاحب جنہوں نے دن رات اس کے لئے محنت کی۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا، جو ہم کرنے جارہے ہیں یہ کوئی حملہ نہیں ہے ، ترمیم میں وفاق کو بچانے کا پورا ایک دھانچہ پیش کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے 73 کے آئین کی بنیاد پورے اتفاق رائے سے رکھی۔ بار بار یہ بات کہی جارہی ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے لیے ہے۔ بلاول بھٹو نے بار بار سمجھایا کہ پارلیمان اپنے حقوق مانگے۔ ہم "سفید گاڑیوں" میں نہیں آئے، قربانیاں دیکر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آئینی ترمیم کے مسودے میں کوئی سیاسی ویکیوم نہیں چھوڑا۔
شیری رحمان نے کہا کہ ہم فخر سے سیاست کرتے ہیں ، سیاست گلی کا کچرا نہیں۔ کیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق نہیں ہے ؟، انہوں نے کہا کہ پارلیمان اپنے حقوق مانگے تو کہا جاتا ہے کہ آپ اپنی جان بچانے کے لیے سب کررہے ہیں۔ ججوں کے تقرر میں پارلیمان کا کردار عدلیہ پر حملہ کیسے ہوگا؟، بہتر ہوتا تحریک انصاف بھی اپنی سفارشات لے کر آتی ۔
اے این پی لیڈر ایمل ولی ایوان کا سینٹ اظہار خیال
سینیٹر ایمل ولی ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں اب ’ساسو ماں‘ کے فیصلے نہیں ہوں گے، عدلیہ میں اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج آئیں گے۔اس ترمیم سے جسٹس ثاقب نتار اور جسٹس کھوسہ جیسے ججوں کا راستہ رک گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہر حکومتی بل کی مخالفت کرے گی۔ پاکستان کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کی ضرورت ہے، ہمیں لاہوری گروپ کے ججوں کی ضرورت نہیں ہے ۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ختم ہوچکا ہے ، بانی پی ٹی آئی قید ہوچکا ہے ، آگے چلو بھائی کب تک بانی پی ٹی آئی انتظار کرو گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 26 نکات پر اتفاق کیا تھا آج 22 نکات کا بل سامنے آیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو وفاقی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہے ، سرکاری اور ذاتی نتصیبات پر کسی کو حملے کا حق نہیں۔
سینیٹر فیصل سبزواری کا سینیٹ میں اظہار خیال
سینیٹر فیصل سبزواری نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے مسودے پر خاصی عرق ریزی کی گئی ہے ، عام لوگوں کو کئی سالوں تک عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا، اگر عدالت اپنا کام فعال طریقے سے کرے تو اس میں عوام کا فائدہ ہے ، عوام کے مقدمات کئی کئی سالوں تک عدالتوں میں چلتے ہیں ، کوئی رہنما تقریر کردے تو صبح نوٹس لے لیا جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں میں بلدیاتی نظام کو اختیارات نہیں دیئے گئے، آئین کہتا کہ صوبائی خود مختاری کے ساتھ صوبوں کو بھی اختیارات دیئے جائیں ، جنرل ضیا کا دیا ہوا بلدیاتی نظام چل رہا ہے بلدیاتی نظام کے متلق آئین واضح نہیں ، ہمیں بلدیاتی حکوتوں سے متعلق دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل کرنی ہے۔ پی ٹی آئی سے آئینی ترمیم کے مسودے پر نظر ثانی کی گزارش ہے، تحریک انصاف اپنی تجاویز پیش کرے۔
سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کا ایوان میں اظہار خیال
سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس آئین نے ملک کو پارلیمنٹ کو بچایا ہوا ہے، اس آئینی ترمیم میں بھی اسٹبلشمنٹ نے شامل کرانے کی کوشش کی ، اگر جیسا مسودہ آیا تھا ویسا منظور ہو جاتا تو کالا سانپ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جو جے یو آئی نے کامیابیاں حاصل کی ہیں اس پر پی ٹی آئی ساتھ دے۔ جے یو آئی نے کالے سانپ کے دانت توڑ دئیے ہیں ۔ جے یو آئی ان ترامیم کو ووٹ کرے گی ۔
سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا سینٹ میں اظہار خیال
سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق ہے ، عوامی مسائل پر آئین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا آئینی ترمیم کا ساتھ نہ دینے سے ترمیم متنازعہ ہوگی۔
راجہ ناصر عباس نے کہا کہ عوام کی حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، جو ترمیم آئی ہیں، اگر یہ اتفاق رائے سے ہوتا تو کسی کو تکلیف نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
دو تہائی سے زیادہ اکثریت
جمعیت علما اسلام کے 5 سینیٹرز کے ساتھ بی این پی مینگل کے دو ارکان سینیٹر وقار اور سینیٹر نسیمہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے۔ کسی جماعت کے منحرف ارکان سے اس اہم آئینی ترمیم کی منظور ی کے لئے ووٹ نہیں لیا گیا۔ حکومت کو ترمیم کی منظوری کے لئے دو تہائی کثریت 64 ارکان کے ووٹ درکار تھے، حکومت کے پاس عملاً دو تہائی اکثریت سے کئی ارکان زیادہ کی حمایت موجود تھی،
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی بھی حمایت حاصل ہے لیکن ان کو اس اہم قانون سازی کو غیر متنازعہ رکھنے کے لئے ووٹ استعمال کرنے کے لئے نہیں کہا گیا۔