ویب ڈیسک: امریکا میں پہلی بار انسانی جسم میں سور کا گردہ ٹرانسپلانٹ کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کے بعد اب دوسرے جانوروں کے اعضا بھی انسانوں میں لگائے جاسکیں گے۔
امریکا کے شہر نیویارک میں واقع نیویارک یونیورسٹی لنگون میں ہونے والے آپریشن میں سرجنز کی ٹیم کی قیادت ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری نے کی۔ ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری کے مطابق سور کا گردہ انسانی جسم نے قبول کرلیا ہے اور دفاعی نظام نے مزاحمت نہیں کی جبکہ مریض نے قدرتی طریقے سے پیشاب بھی خارج کیا ہے۔ جینیاتی انجنئیرنگ سے تیارکردہ سور کے گردے کو ایک دماغی لحاظ سے مردہ قراردئیے گئے مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
گردے میں جینیاتی تبدیلیاں اس لئے کی گئیں تاکہ انسانی جسم گردے کو فوری طورپر مسترد نہ کرے۔ رپورٹ کے مطابق ورثا سے مریضہ کو لائف اسپورٹ سے اتارنے اور گردہ ٹرانسپلانٹ کرنے کی باقاعدہ اجازت حاصل کی گئی تھی۔ گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کے بعد مریضہ کے کریٹانین کی سطح نارمل ہونا شروع ہوگئی۔
ڈاکٹر بہت عرصے سے جانوروں کے اعضا کی انسانوں میں پیوند کاری کے تجربات میں مصروف تھے تاہم انسانی جسم اسے فوری مسترد کردیتا تھاپہلی دفعہ ڈاکٹر منٹگمری اور ان کی ٹیم نے حیوانی اعضا کی کامیاب پیوندکاری کا تجربہ کیا ہے۔ ڈاکٹر منٹگمری کے مطابق سور کے جین میں پایا جانیوالا کاربوہائیڈریٹ انسانی جسم کی جانب سے فوری مسترد کیا جاتا تھا جس پرشوگر مالیکیول یا ''گلائیکن'' جسے ''الفاگال'' کہا جاتا ہے کی مدد سے روکا گیا۔
جینیاتی انجنئیرنگ سے پیدا ہونے والا ''گال سیف'' سور یونائیٹڈ تھیراپیوٹکس کارپوریشن کے ریوائیوی کور یونٹ کی جانب سے تیارکیاگیا جس کی 2020 میں ایف ڈی اے نے منظوری دی تھی۔ یادرہے سور سے متعلقہ میڈیکل پراڈکٹس کی تیاری اور انسانی استعمال کے لئے ایف ڈی اے سے منظوری لازم ہے۔
یادرہے اس وقت صرف امریکا میں ایک لاکھ سات ہزار افراد اعضا کے عطیات کے منتظر ہیں جن میں سے 90 ہزار گردے کے آخری درجے کے مریض ہیں۔ ا س وقت گردے کے عطیئے کے لئے مریض کو پانچ سے سات سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر منٹگمری کے مطابق گردے کی پیوندکاری کے حالیہ تجربے کے بعد گردہ فیل مریضوں کی جان بچانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے زیادہ سے زیادہ دو سال میں ہر مریض کی گردے کی پیوندکاری ممکن ہوگی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ڈاکٹر منٹگمری کا خود کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا آپریشن ہوچکاہے۔