(سٹی42) درجنوں فلموں کے لئے غزلیں، گیت اورمکالمے لکھنے والے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس بیت گئے، مگر انکی انقلابی شاعری کا اثر آج بھی تروتازہ ہے۔
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم،جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
وطن کی گلیوں پر نثار ہونے والے محب وطن اور بیسویں صدی کے عظیم ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بہت سی تلخیوں کے باوجود فیض حریت فکر کے علمبردار اور"لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" سے امید دلانے والی شخصیت تھے۔
بات کے اندر کی بات سمجھنے کیلئے
ذات کے اندر کی ذات سے رابطہ ہونا ضروری ہے
ان کے مجموعہ کلام میں نسخہ ہائےوفا، نقش فریادی، نقش وفا، دست صبا، دست تہہ سنگ، سر وادی سینا اور زنداں نامہ سمیت دیگرشامل ہیں۔ جن کے انگلش، فارسی، روسی، جرمن زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس قدر پیار سےاے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پر اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
فیض احمد فیض کی فلمی انڈسٹری کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں، ان کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گےْ
20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں فیض اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ لاہور ہی میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کےانتقال کے بعد انہیں نشان امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔