سٹی 42: لندن کی ہائی کورٹ نے آزادیِ اظہار اور عوام کے جاننے کے حق کے مجاہد جولیاں اسانج امریکہ کو حوالگی کے خلاف نئی اپیل کرنے کا حق مان لیا ہے۔ اب انگلینڈ کی حکومت کے لئے جولیاںاسانج کو جلد امریکہ کے حوالے کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
2019 سے جیل میں قید جولین اسانج خفیہ معلومات افشا کرنے پر امریکا کو مطلوب ہیں۔ لندن ہائی کورٹ نے 2021 میں جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ برطانوی سپریم کورٹ نے بھی 2022 میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
انگلینڈ کی حکومت پہلے یہ حکم دے چکی ہے کہ جولیاں اسانج کو امریکہ کے فوجی راز افشا کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کے لیے امریکا بھیجا جائے۔ جولیاں اسانج نے اس حکم کو چیلنج کرنے کے لئے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کا فیصلہ آج جولیاں اسانج کے حق میں آ گیا۔
برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کے مطابق اس فیصلے کا مطلب ہے کہ اب جولیاں اسانج ان امریکی یقین دہانیوں کو چیلنج کر سکیں گے کہ ان کے ممکنہ مقدمے کی سماعت کیسے کی جائے گی اور آیا ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی تو نہیں کی جائے گی۔
ہائی کورٹ میں اس تازہ ترین فیصلے کے بعد اسانج کے وکلاء نے عدالت میں ایک دوسرے کو گلے لگا کر مبارک بادیں دیں۔
اسانج کا موقف ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیاے۔
آج پیر کی صبح ایک مختصر فیصلے میں، دو سینئر ججوں نے انہیں پہلے کے حکم کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دے دی، یہ فیصلہ دیا کہ انہیں برطانیہ میں مکمل اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔
جولیاں اسانج کون ہے، اس نے کیا کِیا ہے
آسٹریلیا کے شہری جولیاں اسانج پیشہ کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ انہوں نے 2010 میں عوام کے جاننے کے حق اور آزادیِ اظہار کے اصولوں کو لے کر ریاستوں کی خفیہ معلومات کو سامنے لانے کے لئے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ہیکنگ آپریشن کیا تھا جس کے نتیجہ میں امریکہ اور بہت سی دیگر ریاستوں کے سربستہ راز سات قفلوں کے پیچھے رکھی گئی فائلوں سے نکل کر عام شہریوں کے سامنے آ گئے تھے۔ ریاستوں کی خفیہ دستاویزات میں بھری معلومات کے اس پہاڑ کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے آپریشن کو "وکی لیکس" کا نام دیا گیا تھا۔ عوام نے ان معلومات میں شامل بہت سے ہول ناک انکشافات کے لئے جولیاں اسانج کا شکریہ ادا کیا اور اسے آزادیِ اظہار اور عوام کے جاننے کے حق کا ہیرو قرار دیا لیکن ریاستوں خصوصاً امریکہ نے جولیاں اسانج کی اس عوام دوست پرفارمنس کو ریاست کے خلاف جنگ تصور کیا اور اسانج پر امریکہ کے فوجی راز افشا کرنے کا مقدمہ بنا دیا۔ اسانج امریکہ کے حوالے کئے جانے سے بچنے کے لئے طویل عرصہ تک
اسانج نے 2010 اور 2011 میں وکی لیکس کی ویب سائٹ پر ہزاروں خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے کے بعد ایک دہائی سے زائد عرصے سے برطانیہ سے حوالگی کی مزاحمت کی تھی۔ انہیں امریکہ حوالگی سے بچنے کے لئے لندن میں چھوٹے سے جونبی امریکی ملک ایکواڈور کی ایمبیسی میں پناہ لے کر سالوں تک وہاں محصور رہنا پڑا۔
اس دوران اسانج کے وکلا اور ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نے حوالگی کے خلاف قانونی اور سیاسی جنگ جاری رکھی۔ اسانج نے ایکواڈور ایمبیسی کے اندر ہی ایک خاتون سٹیلا سے شادی بھی کی اور وہیں ان کے ہاں بیٹا بھی پیدا ہوا۔ بعد ازاں انہوں نے ایکواڈور ایمبیسی کی پناہ گاہ چھوڑ کر خود کو برطانوی حکام کے حوالے کر دیا جنہوں نے انہیں جیل میں بند کر دیا۔
جولیاں اسانج کی بیوی سٹیلا اسانج کا کہنا ہے کہ یہ قانونی جنگ میں "فیصلہ کن" دن ہے۔
اسانج، جو اس وقت بیلمارش جیل میں ہیں، اب اپنی اپیل کی تیاری کے لیے کئی ماہ کا وقت لیں گے، جس میں اس بات پر توجہ مرکوز ہوگی کہ آیا امریکی عدالتیں ایک آسٹریلوی شہری کی حیثیت سے ان کے آزادی اظہار کے حق کا تحفظ کریں گی یا نہیں۔
اسانج کا استدلال ہے کہ 2010 میں اس کے انکشافات سے "امریکہ کے فوجی راز" افشا نہیں ہوئے تھے بلکہ "امریکہ کے جنگی جرائم" کا انکشاف ہوا تھا۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ اسانج کے انکشافات نے جانوں کو خطرے میں ڈال دیا۔
اسانج کے حامیوں نےآج لندن ہائی کورٹ کے فیصلےکے اعلان کے ساتھ ہی کمرہ عدالت سے باہر نکل کر خوشی کا اظہار کیا۔ اس فیصلہ کا آسان زبان میں مطلب ہے کہ وہ ابھی برطانیہ میں ہی رہیں گے۔
قبل ازیں پیر کو 52 سالہ اسٹیلا اسانج نے بی بی سی کو بتایا کہ طویل قانونی جنگ میں یہ ایک "فیصلہ کن" دن ہوگا۔ مسز اسانج نے مزید کہا کہ وہ "جولیاں کے آزاد ہونے تک لڑیں گی"، ججوں نے جو بھی فیصلہ دیا وہ جدوجہد ترک نہیں کریں گی۔
اگر عدالت نے امریکہ کے حق میں فیصلہ دیا ہوتا تو اسانج کے لئے برطانیہ میں دستیاب تمام قانونی راستے ختم ہو جاتے۔
امریکہ ہزاروں خفیہ دستاویزات کی اشاعت کے بعد اسانج کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے - جسے امریکی محکمہ انصاف نے "ریاستہائے متحدہ کی تاریخ میں خفیہ معلومات کا سب سے بڑے افشا " قرار دیا۔
اسانج نے امریکہ کے کیا فوجی راز کھولے
فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوج نے افغانستان میں جنگ کے دوران غیر رپورٹ شدہ واقعات میں عام شہریوں کو ہلاک کیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مسٹر اسانج نے دستاویزات میں "انٹیلی جنس کارندوں کے ناموں کو درست کرنے میں ناکامی" کی وجہ سے جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، لیکن ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ "ریاستی انتقامی کارروائی" کی سیاسی طور پر محرک شکل ہے۔
سٹیلا اسانج نے پیر کو بی بی سی ریڈیو 4 کے "ٹوڈے" پروگرام میں کہا، "اس نے جنگی جرائم کو بے نقاب کیا۔"
"یہ کیس اس ملک کا کھلے پن اور احتساب کے خلاف انتقام ہے۔"
برطانیہ کی اس وقت کی ہوم سکریٹری پریتی پٹیل نے 2022 میں اسانج کی حوالگی کے حکم نامے پر دستخط کیے، لیکن وہ فروری 2024 میں ہائی کورٹ سے اپیل کرنے کی اجازت مانگنے کے لیے واپس آگئے۔
مارچ میں ہونے والی ایک سماعت میں، امریکی حکومت کو عدالت کو یقین دہانی کرانے کے لیے اضافی وقت دیا گیا تھا کہ مسٹر اسانج کو امریکہ میں سزائے موت نہیں دی جائے گی اور دو دیگر بنیادوں پر: کہ مسٹر اسانج امریکی آئین میں پہلی ترمیم پر بھروسہ کر سکیں گے - جو آزادی اظہار کی حفاظت کرتی ہے اور یہ کہ اسانج کی آسٹریلین شہریت ان کے خلاف شمار نہیں ہوگی۔
پچھلے مہینے، ججوں نے تصدیق کی کہ امریکہ نے عدالت کو اسانج کے آزادیِ اظہار کے حق کے متعلق یقین دہانیاں فراہم کی ہیں۔
گزشتہ ماہ، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ آسٹریلیا کی جانب سے مسٹر اسانج پر مقدمہ آسٹریلیا میں چلانے اور انہیں ان کے آبائی ملک واپس بھیجنے کی درخواست پر غور کر رہے ہیں۔
ولیان اسانج کی فوری امریکا بدری کا معاملہ ٹل گیا۔ برطانوی میڈیا رپورٹ وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کے خلاف نئی اپیل کا حق مل گیا، برطانوی میڈیا رپورٹ جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کے حوالے سے لندن ہائی کورٹ نے اپیل کی اجازت دے دی، میڈیا رپورٹ جولیان اسانج خفیہ امریکی معلومات افشا کرنے پر امریکا کو مطلوب ہے، میڈیا رپورٹ